دوسری فکر والوں سے اچھا سلوک کرو


02/27/2018

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
قولوا للناس حسناً.
تحریر :استاد محترم سید حسین موسوی 
دوسری فکر والوں سے اچھا سلوک کرو۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرامیں کی روشنی میں


مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ هِشَامٍ الْكِنْدِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ( عليه السلام ) يَقُولُ إِيَّاكُمْ أَنْ تَعْمَلُوا عَمَلًا يُعَيِّرُونَّا بِهِ فَإِنَّ وَلَدَ السَّوْءِ يُعَيَّرُ وَالِدُهُ بِعَمَلِهِ كُونُوا لِمَنِ انْقَطَعْتُمْ إِلَيْهِ زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا عَلَيْهِ شَيْناً صَلُّوا فِي عَشَائِرِهِمْ وَ عُودُوا مَرْضَاهُمْ وَ اشْهَدُوا جَنَائِزَهُمْ وَ لَا يَسْبِقُونَكُمْ إِلَى شَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَيْرِ فَأَنْتُمْ أَوْلَى بِهِ مِنْهُمْ وَ اللَّهِ مَا عُبِدَ اللَّهُ بِشَيْ‏ءٍ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الْخَبْ‏ءِ قُلْتُ وَ مَا الْخَبْ‏ءُ قَالَ التَّقِيَّةُ .

ہشام کندی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفرصادق علیہ السلام کو فرماتے سنا: 
خبردار ایسا کام نہ کرنا جس سے ہماری عزت خراب ہو۔
بیشک برا بیٹا اپنے (برے)عمل سے اپنے والد کی عزت برباد کرتا ہے۔
جن سے تم وابستہ ہو ان کے لیے عزت کا سبب بنو انکی توہین کا سبب نہ بنو۔
اپنے (اہلسنت) رشتیداروں کے ساتھ نماز پڑھو۔ 
انکے مریضوں کی عیادت کرو۔ 
انکے جنازوں میں شرکت کرو،
نیک کاموں میں وہ تم سے آگے نہ بڑھ جائیں اس لیے کہ نیکی کرنے کے اہل تم ان سے زیادہ ہو۔
اللہ کی قسم اللہ کی عبادت جو اسے سب سے زیادہ محبوب ہو "خبء" سے بڑی کوئی نہیں ہے۔ 
پوچھا گیا: "خبء" کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تقیہ (مدارات)۔
(اصول کافی: باب: تقیہ: حدیث:11)

2۔ 
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ وَهْبٍ قَالَ قُلْتُ لَهُ كَيْفَ يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَصْنَعَ فِيمَا بَيْنَنَا وَ بَيْنَ قَوْمِنَا وَ بَيْنَ خُلَطَائِنَا مِنَ النَّاسِ مِمَّنْ لَيْسُوا عَلَى أَمْرِنَا قَالَ تَنْظُرُونَ إِلَى أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تَقْتَدُونَ بِهِمْ فَتَصْنَعُونَ مَا يَصْنَعُونَ فَوَ اللَّهِ إِنَّهُمْ لَيَعُودُونَ مَرْضَاهُمْ وَ يَشْهَدُونَ جَنَائِزَهُمْ وَ يُقِيمُونَ الشَّهَادَةَ لَهُمْ وَ عَلَيْهِمْ وَ يُؤَدُّونَ الْأَمَانَةَ إِلَيْهِمْ .

ابن وہب کہتا ہے میں نے (امام صادق علیہ السلام ) سے پوچھا: 
ہمارےی قوم کے لوگ اور ملنے جلنے والے جو ہمارے مذہب پر نہیں ہیں ان کے ساتھ ہم کیا سلوک کریں؟ 
آپ نے فرمایا: 
تم جن اماموں کی امامت کو مانتے ہو ان کو دیکھو، جیسا سلوک وہ لوگ کرتے ہوں تم بھی ویسا ہی کرو۔
اللہ کی قسم!تمہارے امام تو انکے مریضوں کی عیادت کرتے ہیں، ان کے جنازوں میں شرکت کرتے ہیں، ان کے حق میں یا ان کے خلاف گواہیاں دیتے ہیں اور انکی امانتیں انکے حوالے کرتے ہیں۔
(اصول کافی: کتاب: العشرہ: باب: مَا يَجِبُ مِنَ الْمُعَاشَرَةِ حدیث: 4)


أَبُو عَلِيٍّ الْأَشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ وَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ أَبِي أُسَامَةَ زَيْدٍ الشَّحَّامِ قَالَ قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ( عليه السلام ) اقْرَأْ عَلَى مَنْ تَرَى أَنَّهُ يُطِيعُنِي مِنْهُمْ وَ يَأْخُذُ بِقَوْلِيَ السَّلَامَ وَ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ الْوَرَعِ فِي دِينِكُمْ وَ الِاجْتِهَادِ لِلَّهِ وَ صِدْقِ الْحَدِيثِ وَ أَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَ طُولِ السُّجُودِ وَ حُسْنِ الْجِوَارِ فَبِهَذَا جَاءَ مُحَمَّدٌ ( صلى الله عليه وآله ) أَدُّوا الْأَمَانَةَ إِلَى مَنِ ائْتَمَنَكُمْ عَلَيْهَا بَرّاً أَوْ فَاجِراً فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ( صلى الله عليه وآله ) كَانَ يَأْمُرُ بِأَدَاءِ الْخَيْطِ وَ الْمِخْيَطِ صِلُوا عَشَائِرَكُمْ وَ اشْهَدُوا جَنَائِزَهُمْ وَ عُودُوا مَرْضَاهُمْ وَ أَدُّوا حُقُوقَهُمْ فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ إِذَا وَرِعَ فِي دِينِهِ وَ صَدَقَ الْحَدِيثَ وَ أَدَّى الْأَمَانَةَ وَ حَسُنَ خُلُقُهُ مَعَ النَّاسِ قِيلَ هَذَا جَعْفَرِيٌّ فَيَسُرُّنِي ذَلِكَ وَ يَدْخُلُ عَلَيَّ مِنْهُ السُّرُورُ وَ قِيلَ هَذَا أَدَبُ جَعْفَرٍ وَ إِذَا كَانَ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ دَخَلَ عَلَيَّ بَلَاؤُهُ وَ عَارُهُ وَ قِيلَ هَذَا أَدَبُ جَعْفَرٍ فَوَ اللَّهِ لَحَدَّثَنِي أَبِي ( عليه السلام ) أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ يَكُونُ فِي الْقَبِيلَةِ مِنْ شِيعَةِ عَلِيٍّ ( عليه السلام ) فَيَكُونُ زَيْنَهَا آدَاهُمْ لِلْأَمَانَةِ وَ أَقْضَاهُمْ لِلْحُقُوقِ وَ أَصْدَقَهُمْ لِلْحَدِيثِ إِلَيْهِ وَصَايَاهُمْ وَ وَدَائِعُهُمْ تُسْأَلُ الْعَشِيرَةُ عَنْهُ فَتَقُولُ مَنْ مِثْلُ فُلَانٍ إِنَّهُ لآَدَانَا لِلْأَمَانَةِ وَ أَصْدَقُنَا لِلْحَدِيثِ.

زید شحام کہتا ہے امام جعفر صادق نے فرمایا: جو تمہیں نظر آئے کہ میری اطاعت کرتاہےاور میرا حکم قبول کرتا ہے، اس کو میرا سلام کہو! اور کہو! میں تمہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کی تاکید کرتا ہوں۔ اپنے دین میں گناہوں سے دور رہو! اللہ کی خاطر جدوجہد کرو، سچ بولو، امات ادا کرو، اپنے سجدوں کو طول دو، پڑوسیوں سے نیکی کرو یہ وہ (شریعت) ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لائے ہیں۔نیک یا برا تمہارے پاس امانت رکھے تو اسے ادا کرو بیشک رسول اللہ (ص) سوئی اور دھاگا تک ادا کرنے کا حکم دیتے تھے۔ 
اپنے عزیزوں اور رشتیداروں کے ساتھ روابط برقرار رکھو،
انکے جنازوں میں شرکت کرو،
انکے مریضوں کی عیادت کرو،
انکے حقوق ادا کرو،
جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے دین کا پابند ہوگا، سچ بولے گا، امانت ادا کرے گا، لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آئے گا،
تو لوگ کہیں گے یہ جعفری ہے۔ یہ بات مجھےخوش کرے گی اور میرے دل تسکین دےگی۔لوگ کہیں گے یہ ادب اسے جعفر نے سکھایا ہے۔
لیکن اگر تم ایسے نہیں بنوگے تو اس کی مصیبت مجھ پر آئے گی اور توہین میری ہوگی،
لوگ کہیں گے یہ ادب اسے جعفر نے سکھایا ہے۔
اللہ کی قسم میرے بابا (امام باقر) نے مجھے بتایا کہ: اگر کسی قبیلے میں کوئی ایک علی (ع) کا شیعہ ہوتا تھا تو وہ اپنے قبیلے کے لیے زینت ہوتاتھا، دوسروں سے امانتداری میں بڑھا ہوا ہوتا تھا، دوسروں سے زیادہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے والا ہوتا تھا اور سب سے زیادہ سچا ہوتا تھا۔ سب لوگ اپنی امانتیں اور وصیتیں اس کے حوالے کرتے تھے۔ اگر تم قبیلے سے اس کے متعلق دریافت کرتے تو وہ کہتے: اس کا ثانی کون ہوسکتا ہے؟ بیشک وہ ہم سب زیادہ امانتدار اور سچا ہے۔ 
(اصول کافی: کتاب: العشرہ: باب: مَا يَجِبُ مِنَ الْمُعَاشَرَةِ حدیث: 5)
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔