03/01/2018
تحریر:استاد محترم سید حسین موسوی
ہوسکتا ہے کہ کوئی کہے کہ آپ نے یہ سوال کیوں کیا کہ انسان لادین کیوں بن جاتا ہے؟ یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ انسان دیندار کیوں بنتا ہے؟ اس سلسلے میں گذارش ہے کہ کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ دین انسان کے باہر سے نہیں آتا بلکہ اندر سے آتا ہے یعنی اس کی فطرت میں ہے۔ اس لیے جو چیز فطرت میں ہو اس کے لیے نہیں پوچھا جائیگا کہ یہ کیوں ہے؟ سوال یہ ہوگا کہ جب یہ چیز فطرت میں ہے تو انسان اس کی مخالفت میں کیوں جاتا ہے؟
میرا مقصد ان چند سطور میں ان تمام اسباب کا احاطہ کرنا نہیں ہے جو لادینیت یا الحاد کا سبب بنتے ہیں، بلکہ اپنے مشاہدہ کی بنیاد پر سب سے اہم ترین سبب کی نشاندہی کرنی ہے۔
اس سلسلے میں پہلے چند باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے اس کے بعد لادینت کا سبب سمجھنا آسان ہو جائیگا۔
1۔ ہم نے دین اسلام کو روحانیات، عرفانیات اور اخلاقیات سے خالی کر دیا ہے۔ بلکہ کئی اطراف سے عرفانیات کو بدعت اور شرک کہہ کر دین سے خارج کیا جا رہا ہے۔ یاد رہنا چاہیے کہ انسان کے روح کو سکون دینی عرفانیات اور روحانیات سے ملتا ہے رسم و رواج (شعائر) سے نہیں۔
2۔ دوسری طرف ہم نے اپنی سمجھ کے مطابق دین کی عرفانیات سے خالی کچھ رسمیں، طور، طریقے اور ثقافت بنائی ہوئی ہے جسے شعائر کہہ سکتے ہیں اور صرف اسی کو دین قرار دے رہے ہیں۔
3۔ ہم نے اپنی سمجھ کے مطابق جو شعائر دین کے نام سے جاری کر رکھے ہیں، ان ہی کو اللہ سے نازل شدہ دین سمجھتے ہیں اور جو ہماری سمجھ کو نہ مانے اسے دین سے خارج اور مرتد قرار دے کر قابل گردن زنی سجھتے ہیں۔
اب الحاد کا بنیادی سبب جو میں نےاپنے 30 برس کے مطالعہ اور مشاہدے سے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ: لوگ اس دین کے منکر نہیں ہیں جو انکی فطرت میں ہے، بلکہ لوگ تو دین کے اس تصور کے مخالف ہیں جو بغیر روحانیات اور اخلاقیات کے دیا جارہا ہے۔ ان لوگوں کو اس رسم و رواج کے مجموعہ سے الرجی ہے جو ہم نے اپنی سمجھ کے نتیجے میں بنایا ہے۔ پھر اس مجموعہ کے منکر کو دین کا منکر قرار دیتے ہیں۔ یاد رہے جس دین میں روحانیات اور اخلاقیات نہ ہوں اس دین کے رسموں اور شعائر سے تنفر فطری چیز ہے۔
آسان زبان میں یوں کہوں کہ جن لوگوں کو ہم بے دین اور ملحد کہتے ہیں وہ اصل میں دین کی اس تفسیر کے مخالف ہیں جسے ہم نے بناکر اس کے منکر کو بے دین سمجھ لیا ہے۔ چونکہ دین انسان کی فطرت میں ہے اس لیے اکثر ملحد حقیقی الاہی دین کے منکر نہیں ہیں بلکہ دینداروں کی طرف سے کی گئی اس دینی تفسیر کےمنکر ہیں جو بغیر روحانیات اور اخلاقیات کے ہے۔ (غور فرمائیں)
مندرجہ بالا سطور سے میری یہ مراد نہیں ہے کہ ملحدین ایک صحیح سبب کی بنا پر دین سے دور ہوئے ہیں۔ ان کو بھی یہ چیز ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ٹھیک ہے کہ عام آدمی دین تو دینداروں کے کردار سے لیتا ہے لیکن فہمیدہ انسان وہ ہے جو دین کو اور دینداروں کو جدا کرکے دین کو اس کے اپنے اصلی ماخذ سے لے، جو کہ لوگ نہیں کرتے۔
حل:
ان حالات سے نکلنے کا راستا موجود ہے وہ یہ ہے کہ:
1۔ دین کو اسکے شعائر کے ذریعہ نہیں بلکہ حقیقی روح یعنی عرفانیات اور اخلاقیات کے ذریعہ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔
2۔ دین کی جو تفسیر ہم کر رہے ہیں، اس کو دین کی آخری تفسیر قرار نہ دین بلکہ اسے صرف ایک تفسیر سمجھیں اور دوسروں کو بھی بنیادی دینی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی تفسیر بیان کرنے کی اجازت دیں اور پھر اس پر کفر و شرک کے فتویٰ نہ لگائیں بلکہ اس پر آزادانہ تنقید اور تحقیق کی راہیں کھولیں۔
3۔ سب دینی شعائر کو ہردور میں مقدس نہ سمجھیں بلکہ اس پر دین و عقل کی روشنی میں نظر ثانی کا راستا کھولیں۔ حقیقی دین، دینی شعائر کی جگہ عرفانیات اور اخلاقیات کو بنائیں اور شعائر کو دوسرے نمبر پر رکھیں۔
یقین جانیں ہم قرآن مجید اور محمدد آل محمد علیہم السلام کے دین کے جتنے قریب پہنچیں گے اتنے ہی الحاد کے دروازے بند ہونگے۔
اسی طرح مکتب اہلبیت بھی ہے۔ ہم نے اپنے مکتب کو عرفانیات اور اخلاقیات سے خالی کرکے کچھ دینی شعائر کو ہی مکتب قرار دے رکھا ہے اور اس کے مخالف کو مکتب سے خارج۔ اگر مکتب اہلبیت کو اہلبیت علیہم السلام کی دعاؤں اور سیرت میں موجود عرفانیات اور اخلاقیات کے ذریعہ پیش کیا جائے تو اس آزاد دنیا میں اس کا شاید ہی کوئی مخالف ملے۔
(یہ میری رائے ہے اور میں اس حوالے سے آپکی ہر طرح کی راء کا احترام کرتا ہوں آپ اپنی رائے بیان کرنے میں آزاد ہیں۔)
والسلام علیکم و رحمه اللہ