شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ایک زندہ انسان،ایک بیدار تحریک


03/06/2018

(تحریر: سید انجم رضا)
شہید قوم میں قلب کی حیثیت رکھتا ہے، جس طرح وجود میں قلب اپنا کام کرتا ہے اور پورے جسم کو لہو فراہم کرتا ہے، عین اسی طرح شہید بھی قوموں اور معاشروں کو خون دے کر شعور فراہم کرتا ہے، شہید ملتوں کو جگاتے ہیں۔ شہید شمع کی مانند ہوتا ہے جو خود تو جل جاتی ہے لیکن اندھیروں کو مات دے کر اجالا کر جاتی ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی بھی پاکستان کی ملت کے لئے ایسے شہید تھے جنہوں نے اپنے خون سے نہ صرف قوم کے جوانوں بلکہ بڑوں اور عورتوں کو بھی بیداری کا شعور بخشا۔ڈاکٹر شھید کی زندگی ہمارے لئے ایک عملی نمونہ ہے، انہوں نے حق کی پہچان کے بعد ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے کو حق کی توہین قرار دیا ہےشہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی ذات میں ایک تحریک تھے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے مسلمان نوجوانوں کو انکے حقیقی دشمن یعنی عالمی استعماری قوتوں اور صہیونیزم کی سازشوںسے روشناس کروایا شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے عالمی استکبار کے مقابلے کیلئے پاکستان کی سرزمین پر شجرہ طیبہ کی بنیاد رکھی جسکا نام آئی ایس او ہے۔

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہیدکی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لیئے نمونہ ء عمل اور رہنمائی کا ذریعہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کا اخلاق،کردار،عمل،میل جول،برتاؤ،اٹھنا بیٹھنا،فلاحی امور کا نیٹ ورک،خدمت خلق سے سرشار معمولات،تعلیمی ترقی و پیشرفت کیلئے اسکول سسٹم کا نیٹ ورک،تنظیمی و تربیتی نشستوں کا احیاء،نوجوانوں کی مختلف میدانوں میں مکمل مدد و تعاون،ذاتی و نجی معاملات میں لوگوں کی درست رہنمائی ،دختران ملت کی فعالیت و قومی اجتماعی امور میں ان کی شرکت،ملت کے دفاع و بقا کیلئے خدمات،الغرض ہر حوالے سے ان کی خدمات قابل تقلید نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔

ڈاکٹر شہید نے اپنی زندگی میں امداد فاؤنڈیشن کے نام سے بھی ایک ادارہ بنایا تھا جو مستحق اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتا تھااس کے تحت قوم کی بچیوں کی شادی اخراجات سے لیکر اسیران ملت و متاثرہ خانوادوں کی امداد و بحالی کا سلسلہ جاری تھااور کئی ایک لوگوں کو چھوٹے پیمانے پر کاروبار کروا کر ان کی مدد کی گئی ۔آج یہ ادارہ یا اس جیسا کوئی ادارہ کہیں نظر نہیں آتااسی طرح ڈاکٹر شہید نے ایک اسکول سسٹم المصطفےٰ اسکول کے نام سے قائم کیا جس کی کئی ایک برانچز ملک کے کئی ایک شہروں میں قائم کی گئی تھیں مگر صد افسوس آج یہ اسکول سسٹم بھی بند کر دیا گیا ہے۔بلتستان کی ایک شخصیت کے ساتھ ملکر انہوں نے ایک ادارہ بلتی طالبعلموں کی فلاح و بہبود کیلئے قائم کیا جس کا نامBESTکھا تھا۔

ڈاکٹر شہید نے جو شعور دیا آج کا نوجوان بھی اسکو اپنا مشعل راہ بنا سکتا ہے ڈاکٹر شہید کی بہت زیادہ خدمات میں تعلیم سرفہرست ہے انہوں نے تعلیم کے حوالے سے بینظیر خدمات انجام دیں زندگی کے آخری ایام بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے تعلیم کو ہی ترجیح دی۔اگر شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی زندگی پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو وہ اپنی ذات میں چراغ ہدایت کے طور پر نظر آئیں گے، یعنی ایسا روشنی کا مینار کہ جو خود بھی ہدایت یافتہ تھا اور دوسروں کو بھی ہدایت کی دعوت دینے والا۔شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کو بائیس برس گزر جانے کے بعد بھی ان کے افکار کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس کی جا رہی ہے، اپنے شعبے سے انصاف کرنے والے ایک انتھک ڈاکٹر، ایک بے مثال استاد، ایک شفیق دوست، ایک وطن دوست غیور انسان تھے۔

آج شہید ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کے افکار ہمارے پاس ہیں، وہ اپنی اعلٰی سوچ اور خدمات کی بدولت ہم میں زندہ ہیں اور ان شہداء کا تذکرہ ہماری ذمہ داری ہے، ان کی فکر کو آگے بڑھانے کیلئے ہمیں ہی کردار ادا کرنا ہے، اس کے لئے پہلے ہمیں خود فکر شہید سے آشنا ہونا ہوگا، تاکہ ہم اسے بہتر انداز میں آنے والی نسلوں کو منتقل کرسکیں۔ڈاکٹر محمد علی نقوی کی وصیت کا یہ جملہ ہم سب کے لئے مشعل راہ ہےخوش بختی ہے ان لوگوں کے لئے جو با صلاحیت اور باشعور لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور ہلاکت ہے ان کیلئے جو اپنے سے کم تر کے ماحول میں پروان چڑھتے ہیں۔
نکتہ داں ، نکتہ سنج ، نکتہ شناس
پاک دل ، پاک ذات ، پاک صفات
یہاں اگر بزم تھی تو اس کی بزم
یہاں اگر ذات تھی تو اس کی ذات
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں اِک چراغ تھا نہ رہا