03/19/2018
ولادت آئمہ علیہم السلام کے حالات
(حصہ اول)
علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے احادیث آئمہ اہلبیت علیہم السلام پر مشتمل اپنی انسائیکلوپیڈیا کتاب بحار الانوار لکھی ہے۔ جو اس وقت 110 جلدوں میں چھپتی ہے۔ اس کتاب کا ایک اہم حصہ امامت اور حجت کے متعلق ہے۔
جلد 25 میں آپ نے پہلے باب کا عنوان یہ رکھا ہے: أبواب خلقهم و طينتهم و أرواحهم صلوات الله عليهم ان کے خلق ہونے کے ابواب ان کی طینت اور ارواح کے متعلق۔
باب 1 بدو أرواحهم و أنوارهم و طينتهم ع و أنهم من نور واحد
پہلا باب: ان کے ارواح، انوار اور طینت کی شروعات اور یہ کہ آپ نور واحد ہیں۔
اس باب میں علامہ مجلسی نے محمد و آل محمد علیہم السلام کی ولادت نوری کا ذکر کیا ہے جو کہ تمام مخلوق سے اول ہے۔
علامہ مجلسی نے دوسرا باب انکی جسمانی اور دنیوی ولادت کا بنایا ہے اور اس کا نام ہے:
باب 2
أحوال ولادتهم عليهم السلام و انعقاد نطفهم
و أحوالهم في الرحم و عند الولادة و بركات ولادتهم صلوات الله عليهم
و فيه بعض غرائب علومهم و شئونهم
احوال ان (ع) علیہم السلام کی ولادت کا، ان کے نطفے کے انعقاد کا۔
رحم مادر میں اور ولادت کے وقت ان کے حالات
اور ان کی ولادت کی برکات
کیونکہ آج کا پرآشوب دور ہے اور اہلبیت علیہم السلام کے ماننے والوں کے عقاید پر ہر طرف سے حملہ ہے۔ کچھ افراد توحید کے نام پر محمد و آل محمد علیہم السلام کے کچھ نوری مقامات کا انکار کرتے ہیں تو کچھ غالی ان کی ہر انسانی صفت کے منکر ہیں اور اسی کے ذیل میں ولادت کے ہی منکر ہوگئے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم وہی عقیدہ رکھیں جو آئمہ اہلبیت علیہم السلام نے ہمیں سکھایا ہے۔ عشق و محبت میں ان کے بتائے ہوئے راستے سے آگے نکلنا ہی غلو ہے۔ شیعہ ہمیشہ امام کے پیچھے چلتا ہے اور غالی ہمیشہ امام کے آگے چلتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: إِنَّهُ شَرٌّ عَلَيْكُمْ أَنْ تَقُولُوا بِشَيْءٍ مَا لَمْ تَسْمَعُوهُ مِنَّا۔ یہ تمہاری انتہائی بری بات ہوگی کہ تم وہ عقیدہ رکھو جو تم نے ہم سے نہیں سنا۔ (اصول کافی۔ کتاب: الایمان و الکفر باب: الضلال حدیث: 1)
علامی مجلسی نے ولادت امام کےاحوال میں 22 احادیث جمع کی ہیں ہم انکا ترجمہ پیش کرتے ہیں کہ ہماری ہدایت کا سبب بنے۔
1- ما، الأمالي للشيخ الطوسي الْمُفِيدُ عَنِ ابْنِ قُولَوَيْهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعْدٍ عَنِ ابْنِ عِيسَى عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِنَّ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي يُولَدُ فِيهَا الْإِمَامُ لَا يُولَدُ فِيهَا مَوْلُودٌ إِلَّا كَانَ مُؤْمِناً وَ إِنْ وُلِدَ فِي أَرْضِ الشِّرْكِ نَقَلَهُ اللَّهُ إِلَى الْإِيمَانِ بِبَرَكَةِ الْإِمَامِ.
ابو بصیر کہتا ہے میں نے سنا امام جعفر صادق علیہ السلام فرما رہے تھے: جس رات میں امام کی ولادت ہوتی ہےاس رات پیدا ہونے والا ہر بچہ مومن ہوتا ہے۔ اگر وہ سرزمین شرک میں پیدا ہو تو امام کی برکت سے اللہ تبارک و تعالیٰ اسے ایمان کی طرف منتقل کرتا ہے۔
2- فس، تفسير القمي أَبِي عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِذَا خَلَقَ اللَّهُ الْإِمَامَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ يَكْتُبُ عَلَى عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب اللہ تبارک و تعالیٰ امام کو ان کی ماں کے پیٹ میں پیدا کرتا ہے تو اس کے دائیں بازو پر لکھتا ہے تمت کلمت ربک۔۔۔۔۔
3- وَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ حُمَيْدِ بْنِ شُعَيْبٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ رَاشِدٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ أَنْ يَخْلُقَ الْإِمَامَ أَخَذَ شَرْبَةً مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ فَأَعْطَاهَا مَلَكاً فَسَقَاهَا إِيَّاهَا فَمِنْ ذَلِكَ يَخْلُقُ الْإِمَامَ فَإِذَا وُلِدَ بَعَثَ اللَّهُ ذَلِكَ الْمَلَكَ إِلَى الْإِمَامِ فَكَتَبَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ فَإِذَا مَضَى ذَلِكَ الْإِمَامُ الَّذِي قَبْلَهُ رَفَعَ لَهُ مَنَاراً يُبْصِرُ بِهِ أَعْمَالَ الْعِبَادِ فَلِذَلِكَ يَحْتَجُّ بِهِ عَلَى خَلْقِهِ.
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب اللہ تبارک و تعالیٰ امام کو خلق کرنا چاہتا ہے توعرش کے نیچے سے شربت لیتا ہے اور فرشتے کو عطا کرتا ہے۔ وہ اس کو (امام کی والدہ یا والد) کو پلاتا ہے۔ اس سے اللہ امام کو خلق کرتا ہے۔جب اس (امام) کی ولادت ہوتی ہے تواللہ اس فرشتے کو بھیجتا ہے جو ان کی آنکھوں کے بیچ میں لکھتا ہے تمت کلمت ربک۔۔۔۔ پھر جب وہ امام جو پہلے تھا وفات پاتا ہے تو نئے کے لیے نور کا ایک مینار بلند ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ بندوں کے اعمال دیکھتا ہے۔ اسی کے ذیعے اللہ اپنی مخلوق پر حجت قائم فرماتا ہے۔
بيان: قوله ع إياها أي أُم الإمام ع و في بعض النسخ إياه كما في الكافي و في بعضها أباه بالموحدة و مفادهما واحد قوله فلذلك في بعض النسخ فبذلك أي يرفع المنار حيث يطلعه على أعمالهم فيصير شاهدا عليهم يحتج به يوم القيامة عليهم و في الكافي و فيما سيأتي و بهذا يحتج الله على خلقه أي بمثل هذا الرجل المتصف بتلك الأوصاف يحتج الله على خلقه و يوجب على الناس طاعته.
4- ير، بصائر الدرجات عَبَّادُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الدَّيْلَمِيِّ عَنْ أَبِيهِ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ نُطْفَةَ الْإِمَامِ مِنَ الْجَنَّةِ وَ إِذَا وَقَعَ مِنْ بَطْنِ أُمِّهِ إِلَى الْأَرْضِ وَقَعَ وَ هُوَ وَاضِعٌ يَدَهُ إِلَى الْأَرْضِ رَافِعٌ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ وَ لِمَ ذَاكَ قَالَ ع لِأَنَّ مُنَادِياً يُنَادِيهِ مِنْ جَوِّ السَّمَاءِ مِنْ بُطْنَانِ الْعَرْشِ مِنَ الْأُفُقِ الْأَعْلَى يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ اثْبُتْ فَإِنَّكَ صَفْوَتِي مِنْ خَلْقِي وَ عَيْبَةُ عِلْمِي وَ لَكَ وَ لِمَنْ تَوَلَّاكَ أَوْجَبْتُ رَحْمَتِي وَ مَنَحْتُ جِنَانِي وَ أُحِلُّكَ جِوَارِي ثُمَّ وَ عِزَّتِي وَ جَلَالِي لَأُصْلِيَنَّ مَنْ عَادَاكَ أَشَدَّ عَذَابِي وَ إِنْ أَوْسَعْتُ عَلَيْهِمْ فِي دُنْيَايَ مِنْ سَعَةِ رِزْقِي قَالَ فَإِذَا انْقَضَى صَوْتُ الْمُنَادِي أَجَابَهُ هُوَ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا
إِلهَ إِلَّا هُوَ وَ الْمَلائِكَةُ وَ أُولُوا الْعِلْمِ قائِماً بِالْقِسْطِ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ فَإِذَا قَالَهَا أَعْطَاهُ اللَّهُ الْعِلْمَ الْأَوَّلَ وَ الْعِلْمَ الْآخِرَ وَ اسْتَحَقَّ زِيَادَةَ الرُّوحِ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ.
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: امام کا نطفہ جنت سے ہے۔ پھر جب امام ماں کے پیٹ سے زمین پر وارد ہوتا ہے تو وہ اپنا ہاتھ زمین پر رکھتاہےاور اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتا ہے۔ راوی کہتا ہے: میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا ہوں ایسا کیوں ہے؟ تو آپ (ع) نے فرمایا: کیونکہ افق اعلیٰ پر عرش کے قلب سے آسمانوں کی فضا میں پکارنے والا پکارتا ہے: اے فلاں بن فلاں ثابت قدم رہ بے شک تو مخلوق میں میرا برگزیدہ ہے، میرے علم کا ظرف ہے۔ تمارے لیے اور جو تمہاری ولایت رکھے گا اس کے لیے میرے اوپر رحمت واجب ہے۔ آپ کے لیے میری جنت اور میراقرب حلال ہے۔ پھر مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ! تجھ سے دشمنی کرنے والے کو اپنے سخت عذاب سے سزا دونگاچاہے ان کودنیا میں وسعت ر زق دوں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: جب یہ منادی ختم ہوتی ہے تو امام ا س کا جواب دیتا ہے: شھد اللہ انہ۔۔۔۔جب امام کہہ چکا ہوتا ہےتواللہ اسے علم اول و علم آخر عطا کرتا ہےاور شب قدر میں روح کے اضافے کا مستحق ہوجاتا ہے۔
بيان: قال الجزري فيه ينادي مناد من بطنان العرش أي من وسطه و قيل من أصله و قيل البطنان جمع بطن و هو الغامض من الأرض يريد من دواخل العرش أقول لعل المراد بالعلم الأول علوم الأنبياء و الأوصياء السابقين و بالعلم الآخر علوم خاتم الأنبياء أو بالأول العلم بأحوال المبدإ و أسرار التوحيد و علم ما مضى و ما هو كائن في النشأة الأولى و الشرائع و الأحكام و بالآخر العلم بأحوال المعاد و الجنة و النار و ما بعد الموت من أحوال البرزخ و غير ذلك و الأول أظهر.
5- ير، بصائر الدرجات مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ عَنْ أَبِي دَاوُدَ الْمُسْتَرِقِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْلُقَ الْإِمَامَ أَنْزَلَ قَطْرَةً مِنْ مَاءِ الْمُزْنِ فَيَقَعُ عَلَى كُلِّ شَجَرَةٍ فَيَأْكُلُ مِنْهُ ثُمَّ يُوَاقِعُ فَيَخْلُقُ اللَّهُ مِنْهُ الْإِمَامَ فَيَسْمَعُ الصَّوْتَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ فَإِذَا وَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ رُفِعَ لَهُ مَنَارٌ مِنْ نُورٍ يَرَى أَعْمَالَ الْعِبَادِ فَإِذَا تَرَعْرَعَ كُتِبَ عَلَى عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: بے شک جب اللہ کا ارادہ امام کے خلق کرنے کا ہوتا ہے تو مزن (عرش سے) سے ایک قطرہ نازل فرماتا ہےوہ وہ شجر پر پڑتا ہے۔ اس میں سے (امام کا والد) کھاتا ہے پھر وہ معاملہ ہوتا ہے اور اللہ اس سے امام کو خلق کرتا ہے۔ وہ ماں کے پیٹ میں آواز سنتا ہے۔ جب زمین پر وارد ہوتا ہے تو اس کے لیے نور کا ایک مینار بلند ہوتا ہےجس کے ذریعہ وہ بندوں کے اعمال دیکھتا ہے۔ پھر جب حرکت کرتا ہے تو اس دائیں بازو پر لکھا جاتا ہے: تمت کلمت ربک۔۔۔۔
بيان: الأكثر فسروا المزن بالسحاب أو أبيضه أو ذي الماء و يظهر من الأخبار أنه اسم للماء الذي تحت العرش.
(جاری ہے)