قرآن اور ہم


01/05/2019

قرآن اور ہم

تحریر علی اصغر

کوئی بھی خاندان ہو ان کو وراثت میں بزرگوں سے کچھ نا کچھ ضرور ملتا ہے. اور اگر کوئی زمیندار خاندان ہو تو وہ اپنے بزرگوں کے مرنے کے بعد فوراً انکی وصیت پہ واجب سمجھ کر عمل کرتے ہوئے جنازے والے دن ہی جائیداد کی تقسیم پہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں. کچھ لوگوں کو تو میں نے باپ دادا کے مرنے کی دعائیں مانگتے سنا ہے تا کہ ان کے مرنے کے بعد زمین , پیسہ ,گاڑی انکو مل سکے. ہم دنیاوی لوگ ہیں مجھ سمیت ہر انسان میں لالچ ہوتا ہے. ہم جائیداد روپیہ پیسہ کے متعلق کی گئی وصیت پہ پورے دل و جان سے عمل کرتے ہیں کیونکہ اس میں اپنا مفاد جو ہوتا ہے. 

آج الماری سے کسی کتاب کی تلاش میں تھا کہ نظر پڑی چار, پانچ قرآن کریم کے نسخے دھول مٹی سے اٹے پڑے تھے شائد پانچ , چھ سال سے ایسے ہی الماری میں پڑے ہوئے تھے ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے سامان ایسے ہی ادھر ادھر پڑا رہا . قرآن کریم کی حالت دیکھ کر بہت شرمندگی محسوس ہوئی اور ایسا صرف میرے گھر میں نہیں بلکہ تقریباً ہر گھر میں ایسا ہوتا ہے کچھ قرآن تو دلہن کے سر پہ رکھ کر لائے جاتے ہیں اور پھر وہ دلہن کا دادی بننے تک ایسے ہی پڑے پڑے ضعیف ہوجاتے ہیں. جب ضعیف ہوجاتے ہیں تو گھر کی کسی پرانی الماری یا مسجد میں جا کر رکھ دیتے ہیں.

حیرت کی بات ہے جائیداد , روپیہ , گاڑی کے متعلق اپنے بڑوں کی وصیت پہ ہم دل و جان سے عمل کرتے ہیں لیکن

کیا ہم نے کبھی اس بات پہ بھی غور کیا ہے کہ ہمارے آقا کریم ص نے ہمیں جانے سے پہلے دو چیزوں کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا تاکہ ہم گمراہ نا ہوں. ایک قرآن اور عترت ع. ہم نے اس حکم پہ کتنا عمل کیا؟ ہم محبت اہل بیت ع کے دعوے کئیے لیکن تعلیمات آل محمد ع سے دور ہیں. ہم نے قرآن کو قسم اٹھانے کے لئے , دکان میں برکت کے لئے, یا اپنے عقیدے کو ثابت کرنے کے لئے مرضی کی آیات دیکھنے کے لئے مختص کر دیا ہے. مجھے یاد ہے آج سے پندرہ بیس سال پہلے عورتیں اور مرد صبح فجر کی نماز کے بعد اپنے اپنے کام شروع کرنے سے پہلے باقاعدگی سے تلاوت کلام پاک کیا کرتے تھے. خواتین عصر کے بعد باقاعدگی سے قرآن پڑھتی تھیں اور قرآن مکمل کرکے اپنے مرحومین کو ایصال کیا کرتی تھیں لیکن اب وقت بدل چکا ہے زندگی مصروف سے مصروف تر اور مشکل سے مشکل ترین ہوتی جارہی ہے ہمارے پاس نماز کے لئے بڑی مشکل سے وقت نکلتا ہے قرآن کی تلاوت ناگزیر ہو چکی ہے. مجھے مصری قوم کی ایک عادت بہت پسند ہے وہ ڈاکٹر ہو یا گاڑیوں کا مکینک سب کے سب دوران کام قرآن کی تلاوت سنتے رہتے ہیں. 

ہم نا قرآن پہ عمل کر سکے نا ہی اہل بیت ع کا دامن مضبوطی سے تھام سکے. , ہمیں شمر کا خنجر یاد ہے سجدہ حسین ع بھول گیا, ہمیں امام ع کا گھوڑا یاد ہے لیکن نوک نیزہ پہ قرآن کی تلاوت بھول گئے. آج کل جدید دور ہے ہر انسان کے پاس انڈراییڈ موبائل ہے ہم اپنے موبائل میں آسانی سے قرآن کریم , تفسیر , نہج البلاغہ , صحیفہ سجادیہ اور بہت سی ایسی کتابیں ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں. فراغت کے اوقات میں اگر ایک آیت کی تلاوت بمع ترجمہ و تفسیر پڑھتے رہیں ہمارے بہت سے مسائل حل ہوجائں گے.

رات ایک مجلس میں پروفیسر عابد حسین عابدی صاحب فرما رہے تھے ایک شیعہ دوست نے اپنے ساتھ کام کرنے والے دوسرے شیعہ دوست کو قرآن کریم تحفے میں دیا اور کہا کہ تم روز پانچ آیات پڑھ کر تفسیر یاد کرکے آنا ہم روز اس پہ بات کیا کریں گے چار پانچ دن بعد وہ شخص قرآن لے کر دوست کے پاس واپس آگیا کہ یہ لو قرآن اگر میں اسکو پڑھتا رہا تو میرا عقیدہ خراب ہوجائے گا.

ڈوب کر مرجانے کا مقام ہے بھلا وہ کیسا عقیدہ ہوگا جو قرآن کو پڑھنے کے بعد خراب ہو جائے گا؟ وہ عقیدہ ہم نے ان لوگوں سے لیا ہے جن کو ہم محرم کا عشرہ سے خطاب کے لئے بیس سے پچیس لاکھ دیتے ہیں اور بدلہ میں ہمیں وہ یہ بتا کر جاتا ہے کہ نعوذوباللہ علی ع اللہ کا جسم ہے , علی رب ہے , علی رازق ہے , علی خالق ہے , علی بارشیں برسانے والا ہے علی بچوں کی شکلیں بنانے والا ہے. اب ہم اگر قرآن کو پڑھیں اور قرآن میں اللہ فرما رہا ہے رب العالمین میں ہوں , رازق , مالک ,خالق , بارشیں برسانے والا, بچوں کی صورتیں بنانے والا میں ہوں تو ظاہر ہے قرآن اور ہمارا بنایا ہوا عقیدہ آپس میں ٹکرا جایں گے. لیکن ہم اللہ کی کتاب کی نہیں بلکہ منبر پہ بیٹھے شخص کی بات کو تسلیم کریں گے.جن کو ہم عشرہ پڑھنے کے لاکھوں دیتے ہیں کیا وہ پورے عشرے میں دس آیات قرآنی پہ بات کر کے گیا ہے؟ اگر حق سچ بتایا پھر تو ٹھیک لیکن اگر قرآن کی بجائے اپنے بابا اور دادا کے بنائے ہوئے عقیدے بتا کر گیا ہے تو قصور اس کا نہیں ہمارا ہے ہم نے ہی اسکو اجازت دی کہ وہ قرآن و اہل بیت ع کے حکم کے خلاف باتیں کرے.

قرآن سے محبت اصل میں محمد و آل محمد ع سے محبت ہے. اور وصیتِ پیغمبر ص پہ عمل ہے.  جن کو قرآن و اہل بیت ع سے متمسک رہنے کا حکم تھا وہ دور سے دور ہوتے چلے گئے.

خدا ہمیں قرآن اور اہل بیت سے جڑنے کی توفیق عطاء فرمائے. آمین