نوول کورونا یا covid-19


03/19/2020

تحریر: استاد محترم قبلا سید حسین موسوی
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
نوول کورونا یا covid-19 
کورونا فیملی کا نیا وائرس ہے۔ جس پر نہ دنیامیں کوئی مکمل تحقیق موجود ہے نہ ہی اس کی کوئی ویکسین یا علاج موجود ہے۔ لیکن جتنی حد تک معلوم ہو وہ یہ ہے:
 
1۔ یہ نزلہ اور زکام (Flu & Influenza) ہی کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ 
2۔ جس طریقے سے زکام ایک آدمی سے دوسرے کو لگتا ہے یہ بھی اسی طرح سے پھیلتا ہے۔
3۔ بچوں میں یہ بہت کم پایا گیا ہے۔
4۔ جوان اگر متاثر بھی ہو تو پیناڈول وغیرہ سے ٹھیک ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے جوان کو کورونا ہو جائے پھر دو تین دنوں میں ٹھیک ہوجائے اور اسے پتا بھی نہ چلے ۔ اس لیے ان کو تو پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
5۔ جو افراد پہلے سے مریض ہیں یا جو کافی عمررسیدہ ہیں ان کے لیے خطرناک چیز ہے۔ 
6۔ گمان غالب یہ ہے کہ جیسے باقی زکام کے جراثیم گرمی میں مرجاتے ہیں اور گرمیون میں زکام نہیں ہوتا اسی طرح اس وائرس پر بھی گرمیوں کا اثر پڑے گا۔ لیکن اس امر کی تصدیق ہونا باقی ہے۔ 
 
احتیاط:
صفائی رکھنا ہے۔ جس کے مختلف طریقے ہیں۔
 
خاتمہ:
اسکا خاتمہ تو فی الحال ممکن نہیں ہے لیکن صورتحال معمول تک لانے کے دو راستے بتائے جارہے ہیں:
1۔ کوئی ویکسین یا دوا ایجاد ہوجائے اور وہ استعمال کی جائے۔
2۔ جب یہ پھیل جائے گا اور جو نقصان اس نے کرنا ہے وہ کرچکے گا تو انسان کے جسم کے اندر اس کے دفاع کے لیے خودبخود حفاظتی نظام وجود میں آجائے گا۔
 
اموات کا تناسب:
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال موسمی اینفلواینزا اور فلو جسے ہم نزلہ اور زکام کہتے ہیں کی وجہ سے  دو لاکھ نوے ہزار ۔۔سے۔۔۔ چھ لاکھ پچاس ہزار تک اموات ہوتی ہیں۔
 
جبکہ نوول کورونا سے اس وقت 18 مارچ 2020 تک ایک لاکھ نناوے ہزار دوسو چونسٹھ افراد متاثر ہوئے ہیں اور اموات کی تعداد۔۔۔ سات ہزارنوسو چرانوے ہے۔  
 
اسلیے پریشان ہونے کی بجای اس سے مقابلے کی ضرورت ہے۔ 
 
یہ کسی کی سازش ہے:
ہوسکتا ہے کہ یہ انسان دشمن قوتوں کی جراثیمی جنگ کا طریقہ ہو کیونکہ ماضی میں بھی اس کی مثالین موجود ہیں۔ لیکن فی الحال کوئی دلیل کسی کے پاس موجود نہیں ہے۔
 
دین کہاں ہے:
کہا جارہا ہے کہ سب مقدس مقامات بند کیے جارہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس اس کی کوئی شفاء نہیں ہے!
حقیقت یہ ہے کہ دین کی ذمیداری ہے کہ:
 
1۔ اس دنیا میں زندگی کا مقصد عطا کرے، اس تک پہنچنے کا راستہ بتائے اور پہنچانے والا رہبر فراہم کرے۔
2۔ معاشرے کو عدالت پر چلانے کے لیے نظام حیات اور اس کو چلانے والا عطا کرے۔
یعنی دین کا کام دلوں کے امراض کا علاج اور عادلانہ قوانین دینا ہے۔ 
 
باقی سب چیزیں دین نے انسانی تحقیق پر چھوڑدی ہیں اور یہ انسان کی ذمیداری ہے کہ وہ اس راہ میں جدوجہد کرے۔
 
باقی معجزانہ شفاء ملنا ایک استثنائی امر ہے عمومی قانون نہیں ہے۔ 
 
آخری نکتہ:
ہم نے دین سے صرف کلمہ لیا ہے اور بس۔ نہ مقصد حیات لیا ہے نہ ہی عادلانہ معاشرے کا نظام۔
دین کا نظام اور رہبر دونوں امت سے خوفزدہ ہوکر غائب ہیں!! پھر بھی کہتے ہیں کہ اس مرض کا علاج کرنے کے لیے دین کہاں ہے؟
 
والسلام علیکم ورحم‌‌ت اللہ