انسان کا امتحان


04/07/2020

*مدرس: استاد محترم قبلا سید حسین موسوی* *موضوع: انسان کا امتحان* تاریخ: 2020-04-05 تحریر: عاطف مہدی سیال السلام علیکم خداوند عالم نے انسان کو اس دنیا میں پیدا کیا ہے اور خداوند عالم نے اس دنیا میں انسان کو جو چیزیں عطا کی ہیں وہ انسان کے لیے امتحان ہیں ان چیزوں کے ذریعے انسان کو آزمایا جاتا ہے مثال طور انسان کا جسم بہی ایک آزمائش ہے، زندگی بہی ایک آزمائش ہے اور جسم کے ساتھ جو صلاحیتیں ہیں وہ بہی آزمائش ہے،، سمجھنا یہ ہے کہ آزمائش ہے کیا؟؟ جب ایک استاد شاگرد کا امتحان لیتا ہے اس میں موجود صلاحیتیں دیکھنے کے لیے لیکن خدا نے ہمیں خلق کیا ہے اس لیے خدا کو ہماری صلاحیتوں کا معلوم ہے اس لیے خدا ہم سے امتحان لیتا ہے صلاحیتیں دیکھنے کے لیے نہیں بلکے صلاحیتیں دینے کے لیے اور جب انسان امتحان دیتا ہے تو اور مظبوط ہوتا ہے، اس شیطان کا وجود بہی ایک آزمائش ہے جیسے ایک طرف برائیاں اور دوسرے طرف نیکیاں، ایک طرف باطل اور دوسرے طرف حق اب انسان کے پاس اختیار ہے کہ کونسا رستہ اختیار کرے یہ آزمائش ہے۔ جیسے کہ امتحان سے انسان مظبوط ہوتا ہے اس لیے مومن کا ہر دن کسی نہ کسی طریقے سے امتحان ہوتا ہے، اس دنیا میں انسان کا مقصد بہی امتحان سے گذر کر مظبوط بننا ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے زندگی اور موت انسان کی آزمائش کے لیے پیدا کئے ہیں تا کہ انسان مقصد تک پہنچیں۔۔ اب سوال یہ ہے کہ امتحان کس چیز کا ہوگا؟؟ امتحان اپنی شناخت کا ہے اس دنیا میں انسان کے پاس جو کچھ بہی ہے وہ اللّٰہ کا ہے اس کی ہر چیز کا مالک اللّٰہ ہے اور انسان اس کا بندہ ہے، اب انسان ک امتحان یہ ہے کہ انسان خد کو بندہ سمجہتا ہے یا نہیں؟؟ امتحان یہ ہے کہ انسان خد کو خدا کا بندہ سمجھے اور اپنی حیثیت پہچانیں تو ئی وہ کامیاب ہے ورنہ نہیں، مثال طور اللّٰہ تعالیٰ ہم سے کچھ مانگیں اگر میں خد کو مالک سمجھوں گا تو دینے میں پریشان ہونگا اگر بندہ سمجھوں گا تو مالک کو انکی چیز دینے میں پریشانی نہیں ہوگی، اس کے کافی مثال موجود ہیں لیکن یہاں ایک بیان کرتے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سب سے پہلے والد انقال کر گئے اس کے بعد انکے چاچا نے انکی پرورش کی، اور خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہا کہ اپنے چاچا کو چھوڑو کیوں کہ وہ بت پرست ہیں، اب امتحان ہے اگر ابراہیم ع یہ سمجھتے کے میری پرورش چاچا نے کی ہے اسے کیسے چھوڑوں، پر اگر یہ سمجھتے کہ اللّٰہ نے میری پرورش چاچا کے ذریعے سے کروائی ہے تو کوئی پریشانی نہیں، اب آپ نے مالک کہنے ہر چاچا کو چھوڑ دیا پھر قوم کو چھوڑنے کا حکم ملا اس کے بعد اپنے وطن کو چھوڑنے کا ملا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سب کچھ چھوڑ دیا کیوں کہ یہ سب ان کو خدا نے ئی دیا تھا، خداوند متعالی انسان سے امتحان اس لیے لیتا ہے کہ انسان خد کو ان چیزوں کا مالک نہ سمجھے اگر بندہ سمجھتا ہے تو کامیاب ہے اگر مالک سمجھتا ہے تو ناکامیاب ہے اور پریشان بہی ہوگا اور کبہی بہی انکا مالک نہیں بن پائیگا کیوں کہ وہ اسکی ہیں ئی نہیں، انسان بندہ بن کر جو کام کرتا ہے وہ اسکی نیکیاں ہیں۔۔ اللّٰہ تعالیٰ انسان سے جو چیز لیتا ہے اللّٰہ اس کا کرتا کیا ہے؟ کیوں کہ اللّٰہ تعالیٰ ان چیزوں سے بے نیاز ہے پہر کیوں؟؟ قرآن پاک میں ہے کہ، جو چیزیں آپکے پاس ہیں وہ ختم ہو جائیگی اور خدا جو کو پاس ہیں وہ ہمیشہ رہیں گی۔ اب جو بہی چیز خدا کے پاس ہے وہ باقی رہیگی، اب سمجھنا یہ چاہییے کہ جو چیز خدا کو دیتے ہیں در اصل وہ ئی باقی رہتی ہے۔ جو انسان اس دنیا کا مالک بننے کی کوشش کر رہا ہے انسان کے پریشانی کی وجہ ئی یہ ہے کیوں کہ انسان مالک نہیں بن سکھتا ہے اپنی حیثیت کو سمجھیں ہم بندے ہیں بندے بن کر رہیں گے تو زندگی سکون میں گزیرے گی۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں، جو انسان دنیا کے پیچھے بھاگے گا دنیا اس سے بھاگے گی اور جو دنیا سے دور بھاگے گا دنیا اس کے پیچھے بھاگے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مالک بنیں پر راستہ غلامی والا اختیار کرتے ہیں، اگر دنیا کا مالک بننا چاہتے ہیں تو اس سے دور بھاگیں اور اپنی دنیا مالک کے حوالے کر دیں، جب مالک کی ملکیت ہوگی اور اس مالک کے بندے آپ ہیں تو ملکیت آپکو مل ئی جائیگی، جو جو چیزیں آپ خدا کو دیں گے اس سے آپکو آزادی ملے گی جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے چاچا، قوم اور وطن خدا کے حوالے کر دیئے تو انہیں ان میں سے آزادی مل گئی۔ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں آزاد پیدا کیا ہے اور چاہتا ہے کہ جب انسان مرے تو اس وقت بہی آزاد ہو، اصل میں یہ آزادی امتحان کا نتیجہ ہے اس لیے ہمیں اس دنیا کا غلام نہیں بننا ہے، جیسے جیسے آپ امتحان دیتے ہیں آزاد ہوتے جاتے ہیں اور جو چیزیں اللّٰہ کو دیتے ہیں وہ ئی آپکی ملکیت ہے۔ انسان جو غلام بنتا ہے یہ جھنم ہے اور جو آزاد ہوتا ہے وہ جنت ہے اللّٰہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان اس دنیا میں بہی جنت میں رہے اور انسان کو سکون بہی آزادی میں ملتا ہے اور آزاد بننے کے لیے خدا جا بندہ بننا پڑیگا۔ امتحان آزمائش ہے اور نتیجہ آزادی ہے، جس چیز کی آزمائش ہے نتیجہ اس سے آزادی ہے، اللّٰہ تعالیٰ انسان کو آزمائش کے نتیجے میں آزاد کرتا ہے اور اسکے وجود میں سکون پیدا کرتا ہے اس کیے ہمیں آزمائشوں سے گذرتے ہوے خدا کا بندہ بننا ہے۔۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو ان امتحانات سے گذرنے کی توفیق عطا فرمائے انشاللہ۔۔۔ والسلام