12/23/2017
شیعہ سنی اتحاد و یکجہتی
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
شیعہ سنی اتحاد و یکجہتی
کے بارے میں علّامہ سید عبد الحسین شرف الدین اعلی اللہ مقامہ
کا فقہی نقطہ نظر
ایران کے ایک معروف محقق آيت اللہ احمد مبلغی نے شیعہ سنی اتحاد کے عظیم داعی لبنان کے حضرت علّامہ سید عبدالحسین موسوی شرف الدین قدس سرہ کا شیعہ سنی اتحاد و یکجہتی کے حوالے علّامہ کا فقہی نقطہ نظریہ پیش کیا ہے اور حجت الاسلام سید مختار حسین جعفری نے جسے اردو کے قالب میں تیار کیا ہے۔
اسلامی مسالک کے درمیان جو اتحاد کی بات کی جاتی ہے وہ غالبا ایک نصیحت اور موعظے کے قالب میں کہی جاتی ہے۔ اس قالب میں اتحاد کی بات کیے جانے سے سماج کے اندر اس کے عملی ہونے اور معاشرے کے اجتماعی نشیب و فراز میں اس کے فعال اور مستمر طریقے سے پائے جانے کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس مشکل کا حل کیا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اتحاد اور وحدت کو فقہ کے زاویہء نگاہ سے پیش کیا جائے ۔ یہ وہ میدان ہے کہ جس میں رہتے ہوئے وحدت کے مانے جانے کا راستہ ہموار ہوتا رہا ہے ۔ اتحاد کو فقہی میدان میں لانے سے ہی اسلامی مسالک کے اندرونی تعلقات اور اسلامی مسالک کی مشترکہ تاریخ کے پنپنے کا راستہ ہموار ہوتا ہے ۔ غیر فقیہ مصلحین نے اگر چہ اسلامی اتحاد کی ضرورت کی گہرائی کو محسوس کیا ، لیکن انتہائی پریکٹیکل اور حساس مواقع پر ان کی باتیں عملی میدان میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ جب کہ اصلاح کرنے والے فقہاء اتحاد کی ضرورت و اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے علاوہ اس پر عمل کرنے کی راہ میں جو مشکلات ہوتی ہیں ان کو برطرف کرنے میں بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اگر ہم اس بات کو مان لیں کہ اتحاد کے وجود میں آنے کی راہ میں جو مشکلات ہیں ان میں زیادہ تر کا تعلق ان ابہامات سے ہے کہ جو فقہی معنی میں اس کے سلسلے میں پائے جاتے ہیں تو ہم فقہ وحدت اور وحدت فقہی کی سطح پر کامیابی کی ایک واضح تصویر دیکھ پائیں گے ۔
وحدت کے حکم شرعی کو معلوم کرنے کے لیے اس کے موضوع کو تشکیل دینے والی چیزوں ، اس کے عناصر ، اس کی حدود اور اس کے قلمرو کی تعیین اس راہ میں پہلا قدم شمار ہوتے ہیں ۔ بلا شک اتحاد جیسے موجوع کو جو چیزیں وجود میں لاتی ہیں کہ جو اجتماعی موجودات اور اشیاء کے لیے ثقافتی ، اقتصادی اور سیاسی پہلووں میں ان کے ایک میدان کا کام کرتی ہیں وہ ہمارے تصور کی حد سے کہیں بڑھ کر ہیں اور دوسرے موضوعات کے مقابلے میں زمانے کے تقاضوں سے ان کا تعلق زیادہ گہرا ہے ۔
الف : وحدت کی ماہیت صلاح اور تفرقے کی ماہیت فساد ہے:
علامہ شرف الدین موضوع کی شناخت والی وحدت پر اپنی نگاہ میں اس کی واقعیت اور ماہیت کو ایک ایسی حالت میں دیکھتے تھے جو سرتا پا خیر ، صلاح اور مصلحت سے مملو ہوتی ہے ، اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے تفرقے کی ماہیت کو فساد شکست اور پسماندگی قرار دیتے تھے ۔ چنانچہ اس منطق کے مطابق وہ تفرقہ انگیز عوامل کو مفسدین کے زمرے میں شمار کرتے تھے ۔
ب۔ شیعہ اور سنی کے درمیان اتحاد اپنے اصلی عقاید سے دست بردار ہوئے بغیر ممکن ہے:
مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے اصلی عقاید سے دست بردار ہونا باقی رہنے والے اور بنیادی اتحاد کے لیے ضروری نہیں ہے ۔ شرف الدین کی نظر میں بہت ساری تعلیمات معمولا ہر مذہب کی بنیادی تعلیمات ہوتی ہیں جو اس مذہب کو دوسرے مذاہب سے ممتاز کرتی ہیں ان کے سلسلے میں سکوت اور خاموشی کی حکمت عملی اختیار کرنا ایک عملی روش کے طور پر شاید مختصر مدت کے لیے اختلافات کی سطح کو کم کرنے کے لیے غنیمت ہو اور قابل قدر ہو لیکن واقعیت یہ ہے کہ اگر اس روش کے سلسلے میں زیادہ تاکید کی جائے اور یہ ایک وجوب میں بدل جائے تو آخر کار یہ اتحاد کے مسئلے سے آگے بڑھ کر کسی بھی مذہب کی اصلیت پر حملہ ہو گا ۔اس لیے کہ اس کی وجہ سے مذہب کی کچھ اصلی چیزیں تحت الشعاع میں چلی جائیں گی اور ان کو عملی طریقہ بنانے سے ان کے سلسلے میں نظری ابحاث تاریکی کے گوشے میں گم ہو جائیں گی ۔
ج ۔ وحدت کے لیے مذہب کے واقعی اقوال کا لحاظ کرنا چاہیے نہ کہ متعصبین کی شدت پسندی کا:
مرحوم شرف الدین نے علمائے اہل سنت کی توجہ کو ان کی تاریخ کے ان حصوں کی طرف کہ جن کو شدت پسندوں نے تیار کیا ہے مبذول کیا ہے ۔ مثال کے طور پر مرحوم شرف الدین نے اہل سنت کے ایک عالم کی قضاوت پر توجہ دلائی ہے کہ جس نے اہل بیت علیہم السلام اور ان کے مکتب کو بدعت قرار دیا ۔ بلا شک اس قسم کی بات نہ صرف اہل سنت کی بے شمار روایات کے خلاف ہے بلکہ اہل بیت (ع) کے سلسلے میں جو ان کا مذہبی نظریہ ہے اس کے ساتھ بھی سازگار نہیں ہے ۔ لیکن بہر قیمت واقعیت یہ ہے کہ اس مسئلے کو اہل سنت کے درمیان ان کے شدت پسندوں نے پیش کیا ہے اور منفی فضا ایجاد کی ہے ۔
(نیوزنور سے ماخوذ)