استاد محترم سید حسین موسوی کا پروفیشنل زندگی کے اختتام پر خطاب۔ (حصہ اول)۔


01/31/2021

اصغریہ کراچی کی جانب سے استاد محترم کی پروفیشنل زندگی کے اختتام پر پیش کردہ عشائیے میں استاد محترم کا خطاب۔ محسن علی اصغری آپ سب کا شکریہ، آپ کی محبتوں کا شکریہ، آپکی نوازشوں کا شکریہ. ایک یے جو اس دنیا کا وقت ہے یے چاہے کتنا بھی لمبا گذرے جب گذر جاتا ہے تو ایک لمحہ ہوتا ہے، اس سے زیادہ اس کی حیثیت نہیں۔ ہماری زندگیاں مثلاً آج جو زیادہ سے زیادہ گذر رہیں ہیں وہ 80 یا 90 سال ہیں۔ حضرت نوح کی عمر 1000 سال سے زیادہ اور کہا گیا ہے  950 سال انہوں نے تبلیغ فرمائی، جب حضرت عزرائیل آئے ان کے پاس تو آتے رہتے تھے تو آپ نے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا تو انہوں نے کہا کہ آپ کی روح قبض کرنے کیلئے آیا ہوں تو آپ نے کہا کہ مجھے اجازت دے دیں کہ میں دھوپ سے ذرا چھاو کی طرف آجاوں. انہوں نے کہا ٹھیک ہے، آگئے۔ اب حضرت عزرائیل نے ان سے خود پوچھا کہ آپکو اللہ نے اتنی لمبی عمر دی تھی 950 سال تو صرف تبلیغ کی، یے اتنی لمبی عمر کیسے محسوس ہوئی یعنی کیا محسوس کیا آپ نے؟ تو آپ نے فرمایا کہ ایک کمرہ ہو جس میں سے ایک دروازے سے انسان داخل ہو اور دوسرے دروازے سے نکل جائے۔ تو 1000 سال بھی انسان جیے تو جب گذر جاتی ہے تو انسان جو ایک لمحہ نظر آتا ہے، اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس لیے کہا یے گیا ہے کہ جو لمحہ گذر گیا یا جو لمحہ اب آیا نہیں وہ بھی بس میں نہیں ہے،  بس میں صرف وہ لمحی ہے جو حال کا لمحہ ہے، اب انسان کے پاس جو یے ایک لمحہ ہے اس میں انسان نے خود کو ایک ذمہ دار انسان بنانا ہے۔ انسان کو صرف ایک لمحے کیلئے ذمہ دار انسان بننا کوئی مشکل بات نہیں۔ دوسری چیز: زندگی کے تجربات سے ایک تجربہ ہے اور حدیث بھی ہے کہ "جو انسان اپنی آخرت کیلئے کوشش کرتا ہے خداوند متعال اس کی دنیا خود ہی بنا دیتا یے" ہم اُلٹ کوشش کرتے ہیں اپنی دنیا کو آباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور آخرت کیلئے کوشش نہیں ہوتی، جب کہ یے دنیا کو آباد کرنے کا طریقہ بھی نہیں ہے۔ دنیا خدا نے آباد کرنی ہے اور آخرت کیلئے کوشش ہم نے کرنی ہے اور جو انسان آخرت کیلئے کوشش کرتا ہے اس کی دیا خدا خود بنادیتا ہے، اور یےمیری ذندگی اس کا ایک مثال ہے۔ تیسری بات: آپ یے نہ سمجھیں کہ رٹائر ہوگیا ہوں تو آپ کو چھوڑ دونگا یقین رکھیں کہ اب آپکی زندگی اور زیادہ مشکل ہوجائیگی۔ اب جو آپ کیساتھ روابط ہیں انشاءللہ وہ زیادہ ہوجائینگے اس لیے جو حکومت کی جو ایک نوکری تھی وہ ختم ہوگئی اور اب صرف ایک ہی نوکری ہے وہ امام ع کی نوکری ہے۔ اس لیے یے نہ سمجھیں کہ اب آپ کو آرام کا کوئی وقت ملے گا، آپکو آرام اور سکون کا وقت نہیں ملے گا۔ ہم نے خود زندگی میں بہت سے مراحل طئے کیے ہیں، اس وقت جس چیز کی طرف پوری دنیا کی توجہ ہے وہ یے ہے کہ: نظریات اپنی طرف، کچھ دینی کام اور اعمال ہیں وہ اپنی جگہ پر، مگر اصل جو انسان کو چاہیے وہ انسان کا اچھا اخلاق اور عادتیں ہیں۔ دین اچھے عقاید اس لیے دیتا ہے تاکہ انسان کے اندر دراصل اچھا اخلاق پیدا ہوسکے اور  اچھے عمل کو اس قدر دہرانے چاہیے کہ وہ انسان کی عادت اور اخلاق بن جائے۔ انسان کا کردار صرف سوچ اور عمل سے نہیں بلکہ اخلاق سے بنتا ہے۔ بیت سارے لوگ دیکھینگے جو کلمہ بھی پڑہتے ہیں، توحید کا اعلان بھی کرتے ہیں، نماز بھی پڑھتے ہیں لیکن اخلاق یے ہے کہ کم تولتے ہیں، دوسرے کو تکلیف دے کر مزہ حاصل کرتے  اور خود بھی پریشان ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ یے یاد رکھیں کہ انسان کا جو اندرونی طور پر سکون ہے اس کا دارومدار انسان کے اخلاق پر ہے، اخلاق انسان کا اگراچھا ہو تووہ انسان سکون سے رہ سکتے ہیں، لیکنن اگر انسان کا اخلاق بُرا ہو تو پھر چاہے آپ محل میں رہیں یا اے سی میں بیٹھے ہوں مگر اندر میں جلن باقی رہتی ہے، اس لیے سکون صرف اخلاق میں ہے۔ اور دین اسلام نے میں جو اخلاقی نظام دیا یے وہ کسی اور دین نے نہیں دیا اور پھر اس میں سے جو اہل بیت (ع) ہیں، انہوں نے جو اخلاق کو انسان کے اندر پیدا کرنے کیلئے جق طریقہ کار بتایا یے ویسا کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ مثلا: امیرالمومنین علی ابن ابیطالب (ع) ایمان کو بیان کتتے ہیں کہ ایمان چار بنیادوں پر ہے: 1.صبر 2. یقین 3. اعتدال 4.جہاد۔۔۔۔۔