02/02/2021
اصغریہ کراچی کی جانب سے استاد محترم کی پروفیشنل زندگی کے اختتام پر پیش کردہ عشائیے میں استاد محترم کا خطاب۔
محسن علی اصغری
مثلا: امیرالمومنین علی ابن ابیطالب (ع) ایمان کو بیان کتتے ہیں کہ ایمان چار بنیادوں پر ہے:
1.صبر
2. یقین
3. اعتدال
4.جہاد
یے اگر آپ چار چیزیں انسان کی زندگی میں لے آئیں تو انسان کی زندگی میں ایمان پیدا ہوجاتا ہے، ایمان کلمے، عقیدے یا صرف نماز سے نہیں آتا بلکہ ایمان انسان کے اندر صبر پیدا کرنے سے آتا ہے اور صبر انسان کو نہیں آتا جب تک انسان جو کام کررہا ہے اس کے نتیجے کا یقین نہ ہو، اس لیے یقین ضروری ہے اور یقین کے بعد صبرضروری یے۔ کوئی انسان نہیں ہے جو کامیاب انسان ہو اور اس کے اندر صبر نہیں ہو۔
صبر کے ذریعے ہی انسان مشکلات کو حل کرتا ہے، ہر انسان کی زندگی میں مشکلات آسانیاں، آسانیاں مشکلات رہتی ہیں
اننما العسر الیسرا۔
یے ہے اس لیے تاکہ انسان اپنے اندر صبر پیدا کرے۔
اب یے صبر کیسے پیدا ہوتا ہے، یے اہل بیت نے ہمیں بتایا ہے شاید یے طریقہ دنیا میں ہمیں اور کہیں نہ مل سکے۔
اسی طرح سے یقین، اعتدال (نہ حد سے آگے نہ حد سے پیچھے)، انسان کے زندگی میں جدوجہد جہاد، سستی کیسے نکلتی ہے یے سب ہمیں اہل بیت (ع) نے بتائے ہیں۔
یے وہ اخلاق ہے جس کو اب ہم "گلستان اسلام" کے نام سے لارہے ہیں اور انشاءللہ سندہ کی اس دہرتی پر کہ جو اہل بیت کی سرزمین ہے آپکو شاید ذہنون میں ہو کہ یے جو دریائے سندہ ہے اس کیلئے کہا گیا کہ:
اس دنیا میں کچھ دریا ایسے ہیں جنہیں حضرت جبرائیل نے اپنے پروں سے بنایے ہے اور یے دریائے سندہ (مہران) ان میں سے ہے۔
اسی طرح سے کہا گیا ہے کہ جب حضرت فاطمہ کا عقد ہوا تھا تو اس عقد میں جو حق مہر میں دیا گیا تھا اس میں سے دریائے سندہ بھی ہے۔
اس لیے جو بھی انسان دریائے سندہ کے اردگرد رہتے ہیں، اس کا پانی پیتے ہیں، اس پانی سے جو خوراک نکلتی ہے وہ استعمال کرتےہیں, اس لیے محبت اہل بیت اور اولاد فاطمہ سے محبت اس کے اندر فطری عمل ہے، اس لیے آپ دیکھیں گے سندہ میں جو ہندو افراد رہتے ہیں حالانکہ وہ غیر مسلم ہیں وہ بھی محبت اہل بیت (ع) کی محبت رکھتے ہیں،اس کا سبب یہی یے کہ جو اس دریائے سندہ کا پانی استعمال کرے گا کیونکہ اس کے اندر یے نمکِ زھرہ ضرور جائیگا تو اس کے اندر اثر ضرور پیدا ہوگا۔
ہم انشاءللہ کچھ ہی عرصے میں یے پروگرام شروع کرنے والے ہیں کہ ایک نوجوان کی زندگی میں ایمان یعنی صبر، یقین، اعتدال اور جہاد کیسے آئے گا، یے ہم باقاعدہ گلستان اسلام کے نام سے شروع کرنے والے ہیں۔ یے ایک نیا سلسلہ ہے جو اس وقت دنیا میں کہیں پر بھی شروع نہیں ہوا۔
چوتھی بات
دنیا میں چاہے دینی چاہے یونیورسٹی کی تعلیم ہو، اس میں تعلیم کا نظام ہے مگر تربیت کا نظام نہیں ہے۔
تعلیم مثلاً آپ یے سمجہائیں کہ صبر کیا ہوتا ہے۔
سمجہائیں، پڑھائیں اور بتائیں یے تعلیم ہے لیکن یے سمجھانے یا پڑھانے سے صبر نہیں آجائیگا اس کیلئے پھر تربیت اور ریاضت چاہیے اور وہ ریاضت انسان کے اندر پھر صبر پیدا کرتی ہے۔
دنیا میں جتنی بھی درسگاہیں ہیں وہ ساری کی ساری تعلیم کی درسگاہیں ہیں تربیت کی نہیں ہیں۔ تعلیم کیلئے درسگاہیں، وزارتیں، استاد، نصاب موجود ہیں لیکن تربیت اس کیلئے کچھ بھی نہیں ہیں، جب کہ تعلیم آسان ہے اور تربیت مشکل ہے، اور جو آسان ہے اس کیلئے سب کچھ ہے مگر مشکل کیلئے کچھ بھی نہیں ہیں۔
یے صرف ایسا نہ سمجھے کہ یے فقط یونیورسٹیز میں تربیت نہیں ہوتی بلکہ دینی نظام میں بھی یے نہیں ہے۔ یے جو ہمارا گلستان اسلام نظام ہوگا یے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا نظام ہے۔
بچے کے اندر صبر، یقین، اعتدال اور جدوجہد کیسے پیدا کرنا ہے، یے ساری چیزیں ہم بچوں میں لانا چاہیے ہیں اور یے ساری چیزیں ایسی ہیں کہ جو صرف شیعہ یا سنی مسلمان کو نہیں چاہیے بلکہ ہر انسان کو چاہیے اور انسان کی زندگی انہیں اصولوں پر کامیاب ہے۔
اس لیے جو گلستان اسلام ہے، اس کا نام گلستان اسلام اس لیے رکھا ہے کیونکہ یے پھول اسلام نے دیے ہیں، اس حوالے سے گلستان اسلام ہے لیکن ہم اس کو کوئی محدود نہیں رکھیں گے جو بھی اس میں بچہ آنا چاہے شامل ہوسکتا ہے کیونکہ تمام انسانوں کو اس تمام چیزوں کی ضرورت ہے۔
آپکی محبتوں کا ایک مرتبہ شکریہ انشاءاللہ یے روابط جاری رہینگے۔