02/27/2021
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مدرس: استاد محترم سید حسین موسوی
موضوع: امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی سیاسی، مالی و اخلاقی سیرت
ترتیب: عاطف مہدی سیال
ماہ مبارک رمضان میں انسان خود کو قرآن مجید کے قریب کرے چاہے وہ قرآن صامت قرآن ہو یا ناطق قرآن، امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ناطق قرآن کے حوالے سے ہمیں مولا کی سیرت کے قریب جانے کی ضرورت ہے جتنا مولا کی سیرت کے قریب جائیں گے اتنا ہی قرآن کے قریب جائیں گے۔ قرآن پاک میں جتنے بھی اخلاق بتائے گٸے ہیں وہ سب رسول خدا صہ کی طرح امیر المومنین میں اعلیٰ درجے میں موجود ہیں۔ ہمیں اخلاق پر زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے کیونکہ انسان مومن یا مومنہ اخلاق سے بنتا ہے اور کافر بھی کافرانہ اخلاق کی وجہ سے ہی بنتا ہے۔۔ ہمیں مولا کی سیاسی اور اخلاقی زندگی کو سمجھنے کی ضرورت ہے اگر ہم سمجھ جائیں تو کافی مشکلات حل ہو سکتی ہیں
=> امیر المومنین عہ کی سیاسی زندگی* ہماری اکثر سوچ یہ ہے کہ سیاست میں سچ ہوتا ہی نہیں ہے سیاست صرف جھوٹ ہوتا ہے سیاست چلتی ہی جھوٹ سے ہے، لیکن امیرالمومنین عہ سیاست کے عروج پہ ہوتے ہوٸے بھی سچ کو اپنایا اور کبھی جھوٹ نہیں بولا اور وہی سیاست کامیاب ہے کیوں کہ وہ انسان کو خدا کے قریب لاتی ہے، ہمارے پاس سیاست کا مقصد ہی الگ ہے۔ اصل سیاست کا مقصد ہی انسانوں کو خدا کے قریب کرنا ہے اور سچ ہی انسان کو خدا کے قریب کرتا ہے جھوٹ نہیں۔ امیر المومنین نے اپنی سیاست میں صداقت اپنائی ہے اور مولا نے اس سیاست کو مظلوموں کی خدمت کا ذریعہ سمجھا ہے دراصل حکومت کا مقصد ہی مظلوموں کی حمایت کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے حکمران بنائے ہی اس لیے ہیں کہ ایک طاقتور ظالم سے کمزور مظلوم کو اس کا حق دلائیں تا کہ معلوم ہو اللّٰہ تعالیٰ کا قانون اعلیٰ ہے اللّٰہ تعالیٰ کا عدل نافذ ہے۔ امیر المومنین جب حکومت پر آئے تو آپ کا لباس، رہائش اور کھانا بہت ئی سادہ تھا، مولا نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: جو امام، حکمران یا رہبر بنتا ہے اس کی خدا کی طرف سے ذمہ داری ہے کہ وہ خد کو اس جیسا رکھے جو حکومت میں سب سے غریب ہیں، اگر اسکے پاس اپنی ذاتی ملکیت ہے تب بھی وہ اپنے لیے بہتر کھانا، بہتر لباس اور رہائش نہیں اپنا سکتا اسلامی حکومت کے حوالے سے یا تو وہ عیش آرام کا انتخاب کرے یا پھر حکومت کا۔
(الف) امیر المومنین کا لباس* ابن مطر روایت کرتا ہے کہ "میں کوفہ گیا ہوا تھا اتنے میں میرے پاس سے ایک شخص گذرا لوگوں نے کہا کہ یہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ہیں راوی کہتا ہے کہ میں انکے پیچھے گیا مولا ایک درزی کے پاس رکے اور اسے کہا کہ آپ کے پاس جو 02 درھم کا لباس ہے وہ مجھے دیں (اس دور میں 2 درھم کا لباس بہت ہی سادہ لباس ہوتا تھا) مولا نے وہ لباس پہنا اور دعا کی کہ اللّٰہ کی حمد جس نے میرے اس جسم کو چھپانے لیے مجھے ایسا بھترین لباس عطا کیا۔۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولا کا لباس اس دور کے غریبوں جیسا تھا۔۔
(ب) امیر المومنین کا کھانا* راوی کہتا ہے کہ میں امیر المومنین سے ملنے گیا ان کے سامنے لسی پڑی ہوٸی تھی جسے دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ کافی دیر سے پڑی ہوٸی ہے اتنے میں مولا نے تھیلی میں سے جو کی روٹی نکالی اسے توڑا اور کھانا شروع کیا اور مجھے بھی کہا کہ آئیں کھانا کھائیں اور جب میں قریب گیا اور وہ کھانا دیکھ کر خود کو روکا اور سوچا کہ میں یہ کھانا نہیں کھا سکتا۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے فضا کو کہا آپ کو کچھ احساس ہونا چاہیے مولا کے لیے کچھ بہتر کھانا رکھیں تو فضا کہتی ہیں امیر المومنین خود یہ کھانا اور جو کی روٹی تھیلی میں رکھ کر اس پے مہر لگاتے ہیں تاکہ ہم اس کے اندر اور کچھ شامل نا کر سکھیں۔۔ یہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا سادہ کھانا تھا۔
(ج) امیر المومنین کی رہائش* آپ مسجد کے پاس ہی ایک کچے مکان جو کہ کرائے پے لیا ہوا تھا پوری فیملی کے ساتھ رہتے تھے۔۔ اس سادگی کے باوجود بھی امیر المومنین نہج البلاغہ میں خط نمبر 45 میں جو بصرہ کے گورنر جناب عثمان بن حنیف کو لکھا تھا آپ فرماتے ہیں، "تمہارے امام نے اس دنیا میں دو روٹیوں اور اس کے لباس پر صبر کیا ہے اور فرماتے ہیں میں ابھی بھی خوف میں ہوں کہ ہو سکتا ہے حجاز یا یمامہ میں کوئی ایسا شخص ہو جس کو یہ دو روٹیاں بھی میسر نہ ہوں"۔ امیر المومنین کی یہ سیاسی زندگی ہمارے لیے مثال ہے۔۔
=> امیر المومنین کی مالی سیرت
ایک دفعہ مولا کے پاس کچھ مال آیا اور مولا نے حکم دیا کہ اسے تقسیم کیا جائے کیوں کے مولا بیت المال میں مال جمع نہیں کرتے تھے جو آتا تھا حقدار تک ہہنچا دیتے دے، بیت المال والوں نے کہا کہ مولا رات دیر ہو گئی ہے رات گذرنے دیں انشاللہ صبح کو تقسیم کریں گے مولا نے فرمایا آپ ضمانت دیتے ہیں کہ صبح میں زندہ رہوں گا کہنے لگے مولا ہمارے ہاتھ میں کیا ہے؟ تو مولا نے فرمایا پھر آج ہی تقسیم کریں۔ شمع روشن کی گٸی اور رات کو ہی وہ مال تقسیم کیا گیا جب بھی بیت المال میں مال آتا تھا مولا حقداروں تک پہنچانے کے بعد بیت المال کو صاف کر کرتے اور پھر دو رکعت نماز پڑھتے تھے اور فرماتے تھے یا اللّٰہ! جس کا حق تھا اس حقدار تک پہنچا آیا ہوں۔۔ یہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی مالی سیرت ہے۔۔
=> امیر المومنین کی اخلاقی سیرت
ایک مرتبہ ضرار مولا کی شہادت کے بعد کوفے سے شام گیا۔ تو امیر شام نے اس سے پوچھا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے حالات بتاٶ تو وہاں پے ضرار نے جو ایک جملا کہا "اللّٰہ علی ابن ابی طالب پر رحمت فرمائے مولا ہم میں اسے رہتے تھے جیسے ہمارا ہی کوئی حصہ ہو مولا ہمارے درمیاں ہم جیسے ہی بن کر رہتے تھے"۔ یہ ہم جیسا بن کر رہنا ہی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا کمال ہے۔۔ *امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اس 05 سالا دور حکومت میں وہی اخلاق ظاہر کیا ہے جو انہوں نے رسول خدا صہ سے سیکھا تھا* ایک دفعہ آپ کوفے سے باہر کوفے کے جانب واپس آرہے تھے تو ایک غیر مسلم شخص رستے میں انکا ساتھی بن گیا اس نے پوچھا آپ کہاں جارہے ہو مولا نے فرمایا مجھے کوفے جانا ہے اس نے کہا مجھے دوسری جگہ جانا ہے، جہاں پر آکر رستہ الگ ہونا تھا تو مولا کوفے والا رستہ چھوڑ کر اس کے راستے پر اس کے ساتھ چل پڑے تو اس نے کہا آپ شاید بھول گئے ہیں آپکو کوفے جانا تھا مولا نے فرمایا مجھے یاد ہے مجھے کوفے جانا تھا اور جانا ہے تو اس نے کہا وہ راستہ تو آپ نے چھوڑ دیا مولا نے فرمایا میں نے جان بوھ کر چھوڑا ہے کیوں کہ رسول خدا نے ہمیں تاکید فرمائی ہے کہ ہمسفر کا حق یہ ہے کہ کچھ دیر اس کے ساتھ اسکے راستے پر چلیں اسے الوداع کریں اس لیے میں آپ کے ساتھ آیا ہوں تا کہ تمہارے راستے پر چل کر تمیں الوداع کہوں اس نے حیران کو کر کہا کیا آپ کے نبی نے ایسا فرمایا ہے؟ مولا نے کہا جی ہاں، تو اس شخص نے کہا واقعاً یہی انبیاء کا اخلاق ہے۔ اس نے امیر المومنین کے اس اخلاق کو دیکھ کر دیں اسلام قبول کیا اور مسلمان ہو گیا۔۔ امیر المومنین نے کبھی بھی سنت رسول کو تبدیل نہیں کیا اور ہمیشہ سنت رسول پر ہی عمل کیا ہے۔
(الف) امیر المومنین کی یتیموں سے محبت* کوفے میں جنگ جمل میں صفیں میں مولا کے کچھ ساتھی شہید ہوٸے ان سب کے بچے یتیم ہوتے تھے کوفے میں مولا اکثر ان کے ساتھ وقت گذارتے تھے ایک دفعہ شہد کی مشکیں بھر کر آئیں تھیں۔ مولا سب کو ایک برتن میں دیتے رہے لیکن یتیموں کو اپنے پاس بلایا اور مشکوں کے منہ کھول کر فرمایا آپ کھائیں جتنا کھا سکتے ہیں۔ کسی نے پوچھا کہ یا علی! ہمیں تو حساب کر کہ دیتے ہو اور انہیں سارا دے دیا۔ تو مولا نے فرمایا! امام یتیموں کا باپ ہوتا ہے اس لیے یہ اپنے بابا کا مال کھا رہیں ہیں اور یہ انکا حق ہے۔۔ اس قدر امیر المومنین یتیموں سے محبت کرتے تھے۔۔
(ب) امیر المومنین کا اپنے قاتل سے اخلاقی رویہ* جب عبدالرحمان ابن ملجم پکڑا گیا اور اسے مولا کے سامنے لایا گیا تو مولا نے اسے فرمایا۔ اے عبدالرحمان کیا میں تمہارا اچھا امام نہیں تھا؟؟ جب اس نے کچھ بولنا چاہا اور بول نہ پایا تو مولا سمجھ گٸے اس کا گلا خشک ہو گیا ہے اس لیے بول نہیں پا رہا۔ اسی وقت مولا کے لیے ایک شربت آیا تھا جو طبیب نے نسخے کے طور پر مولا کو دیا تھا تا کہ درد کم ہو مولا نے فرمایا کہ یہ شربت اسے پلائو۔۔ یہ دیکھیں مولا کا اخلاق کس درجے کا ہے،، یاد رکھیں سزا اپنی جگہ ہے سزا کے لیے مولا، امام حسن علیہ السلام کو وصیت کر چکے ہیں اس نے مجھے ایک ضرب ماری ہے آپ بھی اسے ایک ضرب مارنا۔ سزا اپنی جگہ ہے لیکن اخلاقی رویہ اپنی جگہ ہے۔ اخلاقی رویہ اھلبیت کا ہمیشہ خوبصورت ترین رہا ہے لیکن افسوس ہم نے اھلبیت سے اخلاق لیا ہی نہیں ہے ہم نے قرآن سے اخلاق لیا ہی نہیں ہے ہمارا اخلاق ان جیسا ہے جو اھلبیت کے قاتل ہیں، یا انکے مخالف ہیں یا تو پھر انکے دشمن ہیں ہمارے کردار میں جھوٹ ہے، بد اخلاقی ہے یہ کردار اھلبیت کا کردار نہیں ہے اس لیے ہمیں اھلبیت سے اخلاق لینے کی ضرورت ہے، انسان دنیا و آخرت میں سکون اسی اخلاق سے حاصل کر سکتا ہے ہمیں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اخلاق اپنی زندگی میں اپنانے ہیں تا کہ ہم بھی علی والے بن سکھیں۔۔