04/01/2021
شروع خدائے بزرگ و برتر کے نام۔
مدرس | استاد محترم سید حسین موسوی
ترتیب و تنظیم | محسن علی اصغری
شروع خداوندِ کریم کے عظیم الاعظم نام کیساتھ۔
1. اہل بیت (ع) کے پاس خوشی منانے کے کیا طریقہ کار ہیں؟
آئمہ معصومین (ع) کی اس قسم کی احادیث جس میں کہا گیا ہے کہ ہمارے خوشی میں خوشی کریں اور ہمارے غم میں غم کرو، یے محفل و میلاد بھی اسی لیے ہے لیکن جس چیز کی ضرورت ہے وہ یے ہے کہ اہل بیت (ع) سے ہم نے فقط خوشی اور غم کا حصہ لے لیا ہے
مگر !
خوشی اور غم کیسے کریں؟
یے طریقہ ہم نے اہل بیت (ع) سے نہیں لیا اور یہاں اہل بیت (ع) سے ہدایت لینے کے بجاءِ ہم نے اپنی صداقت سے یے طریقہ کار لیا ہوا ہے یعنی ہماری اپنی زندگی میں جو طریقہ کار رائج ہیں ہم نے اہل بیت (ع) کی محفل و میلاد میں بھی وہی طریقہ کار اپنایا ہوا ہے اور یے بھی ممکن ہے کہ ہم نے جو اپنی صداقت سے طریقہ لیا ہے وہ اہل بیت (ع) کا نہ ہو۔
جیسے ہم اپنے پیاروں کے گذر جانے پر رسم و رواج سے غم مناتے ہیں، اہل بیت (ع) کے غم میں بھی ہم نے وہی طریقہ کار اپنایا ہوا، جبکہ یے اہل بیت (ع) کا طریقہ کار نہیں ہے۔
محترم عزیز!
ہمارے محفل و میلاد کا بھی وہی طریقہ کار ہونا چاہیے جو اہل بیت (ع) کا طریقہ کار ہے. اہل بیت (ع) کے پاس خوشی کے موقع پر عید کا تصور ہے۔
وہ خوشی چاہے غدیر کی ہو یا مباہلہ چاہیے ماہ مبارک کے اختتام پر ہو، ان سب مواقع پر اہل بیت (ع) کے پاس عید کا تصور ہے۔
ہر ایک عید میں کچھ نمازیں، کچھ دعائیں، کچھ راز و مناجات، اہل بیت (ع) پر زیارات و سلام بھیجنا بالخصوص زیارتِ امام حسین (ع) کی تاکید ہے، اس کیساتھ شوال کی عید نہیں ہے تو روزہ بھی اس خوشی میں شامل ہے۔
اس.کے علاوہ اہل بیت (ع) کے پاس خوشی کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے، اُن کی سب خوشیوں میں میں یہی نظر آتا ہے۔
دوسری الفاظ میں یے کھہ سکتے ہیں یے ایام اللہ تعالیٰ و اہل بیت (ع) کو مزید یاد کرنے کا ایام ہیں۔
اب چونکہ روزہ، نماز، زیارات، مناجات، صدقہ وغیرہ میں ہم نے اپنا خوشی کا مزاج نہیں بنایا ہوا کیونکہ ہم نے اِن چیزوں کو بوجھ سمجھا ہوا ہے تو اب اِن سب چیزوں سے بچنے کیلئے ہم اہل بیت (ع) کی خوشیوں میں اپنا طریقہ کار لے آئے۔
امیرالمومنین علی (ع) کی خلافت کے دور میں بھی عیدِ غدیر آئی تھی تو اُس دن امام (ع) نے خطبہ ارشاد فرمایا اور روزہ و نماز کی تاکید کی اور یے چیزیں مومن کیلئے بائثِ مسرت ہونی چاہیے اور اپنا مزاج اِن چیزوں پر بنانا چاہیے تاکہ یے چیزیں ہمیں خوشی دیں۔
ہمارے پاس جشن کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں سب سے پہلے شاعری اور سُر آگیا اور اس سے ہم محظ مزہ لے رہے ہیں، حتیٰ شاعری حقیقت پر بھی مبنی نہیں ہوگی بس خیالات ہی خیالات۔
اب جیسے آج کل ایک شاعری چل رہی ہے کہ جب امام (ع) آئیں گے تو دھوپ سایہ بن جائے گی، کیا ایسا ممکن ہے؟ بس شاعر نے اپنا خیال دے دیا اور ہم نے سوچے سمجھے بغیر واہ واہ کردی اور خوش ہوگئے۔
ہم نے اپنی خوشی ایسی چیزوں کو بنایا ہوا ہے جوکہ حقیقت پر مبنی ہی نہیں ہے بس چند لمحوں کی خوشی کو ہم نے ابدی خوشی سمجھا ہوا ہے۔
جشن میں دوسری چیز ناچ گانا اور شور شرابہ آگیا، کیا یے اہل بیت (ع) کا طریقہ ہے؟ کیا اہل بیت (ع) نے ہمیں خوشی منانے کی یے تعلین دی ہے یا یے ہماری اپنی صداقت ہے؟
ناچ گانا انسان ذات میں نہیں یے بلکہ یے جانور کرتے ہیں۔
آج کل تعلیم عام ہوچکی ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی محفل و میلاد کے طریقہ کار کو تبدیل کریں اور انہیں ایسے ہی رکھیں جیسا اہل بیت (ع) نے تعلیم کیا ہوا ہے۔
2. کیا ہم امام زمانہ (عج) کا جشن منانے اور مبارکباد دینے کے لائق ہیں؟
رسولِ اسلام (ص) نے جب اس دنیا ستمے رحلت فرمائی تو کیا ہم یے تصور کرسکتے ہیں کہ آپ (ص) نے اس اس امّت کو بغیر کسی سرپرست کے چھوڑ کر جارہے ہیں؟
اس کا جواب آئے گا کہ جی نہیں چھوڑ سکتے اور اس کیلئے غدیر خم کے مقام پر آپ (ص) نے اپنی امّت اپنے جانشین کو سپرد کردی تھی۔
کردار، مقاصد تبدیل ہوئے؟
اگر نبی اکرم (ص) اپنی امّت کو سرپرست کے بغیر نہیں چھوڑ سکتے تو یے کیسے ممکن ہے کہ امام العصر (ع) بغیر کسی سرپرست کے چھوڑ جائیں؟
جو جواب پہلی صورت میں ہے وہی جواب دوسری صورت میں بھی ہے۔
یے سوچنا کہ امام (ع) بغیر کسی سرپرست کے چھوڑ سکتے ہیں یے تشیع کی بنیاد ختم کرنے کے مترادف ہے۔
اب ذرا غور فرمائیں!
نبی اکرم (ص) جو سرپرست چھوڑ کر گئے اس کی خوشی مناتے ہیں مگر جو امام (ع) سرپرست چھوڑ کر گئے اس کی خوشی کیوں نہیں مناتے؟
اگر امام بغیر سرپرست کے نہیں چھوڑا تو جو امام (ع) نے سرپرست چھوڑا ہے تو پھر اس کے بغیر جشن کس کا یے؟ خوشی کس چیز کی؟
پیغام اہم ہے!
امام حجت آخر الزمان (ع) غیبتِ کبریٰ میں جاتے ہوئے فرماتے ہیں:
غیبتِ کبریٰ کے زمانے میں پیش آنے والے حالات کے سلسلے میں ہماری حدیثوں کو بیان کرنے والے راویوں کی طرف رجوع کرو کیونکہ وہ ہماری طرف سے تم پر اسی طرح حجت ہیں جس طرح ہم اللہ کی طرف سے تم پر حجت ہیں۔
(کمال الدین و اتمام النعمہ شیخ صدوقؒ)
ہمارے محفل و میلاد امامِ حجت (ع) کی جانب سے حجت کردہ حجت کی سرپرستی میں ہیں یا نہیں؟
امّت نے نبی اکرم (ص) کے سرپرست کو چھوڑ دیا تبھی دین اصل صورت میں باقی نہیں رہا اور ہم نے بھی ایسا ہی کردیا کہ امام (ع) جنہیں سرپرست بناکر گئے اُن کی سرپرستی میں زندگی بسر کرنا ہی چھوڑ دی تو ہمارے حال اس سے بدتر کیا ہونگے؟ جو اس وقت ہیں.!
محترم عزیز!
یے نہ سمجھیں کہ امام (ع) غیبت میں ہیں تو جب تک آپ (ع) ظھور کریں گے تب میں ہم آزاد ہیں، جی نہیں بلکل نہیں! ہم آزاد نہیں ہیں!
اب ذرا سوچیں کہ اِن حالات میں میں امام (ع) کے میلاد کے موقعے پر مبارکباد کے لائق بھی ہوں یا نہیں؟
3. ہدایت کیساتھ ہمارا کتنا رابطہ ہے؟
رسول اکرم (ص) نے ہمیں دو چیزوں کے حوالے کردیا یے:
1. . کتاب
2. عترت
آپ (ص) نے فرمایا کہ ان کیساتھ متمسک رہوگے تو گمراہ نہیں ہوگے۔
یعنی ہمیں قرآن و اہل بیت (ع) سے ہدایت حاصل کرنا ہے۔
اب ذرا آئیں دیکھتے ہیں کہ ان دونوں سے ہمارا کتنا رابطہ ہے؟
"قرآن سے رابطہ:"
کتنے لوگ ایسے ہیں:
جو روزانہ قرآن کو دیکھتے ہیں؟
جو روزانہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں؟
جو روزانہ قرآن کا ترجمہ پڑھتے ہوں؟
جو قرآن پڑھنا سیکھتے ہیں؟
جو قرآن سمجھنا سیکھتے ہیں؟
جو قرآن سمجھ کر اس سے ہدایت لے کر اسی کے مطابق زندگی گذارنا سیکھتے ہیں؟
بہت سے تو ایسے ہیں جو سال میں ایک مرتبہ فقط دیکھتے ہی ہیں!
یعنی کہ ہمارا پڑھنا اور سمجھنا تو دور کی بات دیکھنے والا رابطہ ہی کتنا کمزور ہے؟
تو میں کیسے سمجھ بیٹھا ہوں کہ میں گمراہی سے بچا ہوا ہوں؟
قرآن سے ہدایت لیے بغیر ہدایت ممکن ہی نہیں ہے!
اہل بیت (ع) سے رابطہ:
ہمارا اس وقت اہل بیت (ع) سے رابطہ فقط ولادت اور شہادت تک محدود ہے۔
مثلاً: آپ کسی دوست کے پاس فقط شادی اور غمی میں جاتے ہیں تو کیا یے اس دوست سے مضبوط اور قریبی رابطہ ہے؟
کیا امیرالمومنین (ع) سے ہمارا رابطہ نہج البلاغہ کے ذریعے ہے؟
کیا امام حسین (ع) سے رابطہ بلاغت الحسین (ع) کے ذریعے ہے؟
کیا امام زین العابدین (ع) سے رابطہ صحیفہ سجادیہ کے ذریعے ہے؟
کیا دیگر آئمہ (ع) سے رابطہ اصول کافی کے ذریعے سے ہے؟
جب ہمارا نہ قرآن سے اور نہ ہی اہل بیت (ع) سے رابطہ ہے تو پھر ہم جو خود کو ہدایت یافتہ کھہ رہے ہیں تو ہمیں یے ہدایت کیسے ملی، کہاں سے ملی اور کس نے دی ہے؟
جس ہادی نے یے ہدایت دی ہے اس ہادی کا نام کیا ہے؟
یے بھی مانتے ہیں کہ ہادی ہے مگر ہدایت نہیں لیتے، یے کیسا تمسخر ہے؟
اب یہاں پر دو چیزوں سامنے رکھیں:
(1) ہمیں رسول اکرم (ص) جس کے سپرد کرکے گئے ہیں اُن کیساتھ میں ہوں یا نہیں؟ ان کیساتھ میرا رابطہ ہے یا نہیں؟
(2) اب بالا درج بیان کی ہوئی سب باتوں کو یکجا کرکے دیکھیں کہ یے ہماری محفل/میلاد/ جشن منعقد کرنا قرآن و اہل بیت (ع) کیساتھ رابطہ ممکن بناتے ہیں یا نہیں؟
جب تک ہدایت سے رابطہ نہیں تب تک گمراہی سے بچنا ممکن نہیں یے۔
ہم جو اس حال میں زندگی بسر کررہے ہیں، اِن حالات میں ہمیں جشن منانے کا حق ہی نہیں ہے کیونکہ جب ہدایت سے رابطہ ہی نہیں تو خوشی کس چیز کی؟ شاعری کس چیز کی؟ واہ واہ کس چیز پر؟
محترم عزیز!
ہم انتہائی مشکل دور سے گذر رہے ہیں، ہمیں بیداری کی طرف آنا ہوگا۔
ہم کتنی ہی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں جو کوئی نکالنے کیلِے ہی تیار نہیں ہے۔
ایک بڑی غلط فہمی کا تذکرہ کرتا چلوں کہ ہمارے ہاں ایک عام فہم ہے کہ جی قرآن مشکل ہے اس لیے اسے پڑھنا اور سمجھنا بہت مشکل کام ہے تو ہم اس سے ہدایت کیسے لوں؟
جبکہ ارشادِ ربّ العزت ہے کہ:
وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ
"اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کیلئے آسان فرمادیا۔"
مطلب کہ یے محظ ہمارے بہانے بنانے کی باتیں بھی ہیں اور غلط فہمی بھی کیونکہ قرآن سے زیادہ کوئی آسان کتاب ہی نہیں ہے اور قرآن سے نزدیک ہوئے بغیر ہدایت ملنا مشکل ہے کیونکہ قرآن ہی ہدایت کا سرچشمہ ہے۔
امام (ع) کے حوالے سے کچھ چیزیں عرض کرنا چاہوں گا:
جانشین کا رابطہ:
امام (ع) سے میرا ایک رابطہ بطور خدا کے جانشین کے ہے اس میں میری کیا ذمہ داری ہے؟
امامت کا رابطہ:
امام (ع) سے میرا دوسرا رابطہ بطور امام ہے جب میں آپ (ع) کو اپنا امام مانتا ہوں تو اس حوالے سے میری کیا ذمہ داری ہے؟ کیونکہ محظ ماننا کافی نہیں ہے۔
3. اللہ تعالیٰ نے جانشین کیون بھیجیں ہیں؟
اب یہاں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جاشنین کیوں بھیجے ہیں؟ اور ان کے کیا اہداف ہیں؟
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ میں زمین میں اپنا جانشین بنانا چاہتا ہوں تو فرشتے یے سمجھ بیٹھے کہ اب تک کی بہترین مخلوق ہم ہی ہیں اس لیے جانشینِ خدا بھی ہم میں سے ہوگا مگر خداوند کریم نے ایک دوسری مخلوق تخلیق کرتے ہوئے فرمایا کہ یے زمین میں میرا جانشین بنے گا تو ملائکہ خدا سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ کیا ایسے کو جانشین مقرر کریں گے جو قتل و فساد پھیلائے گا؟
خداوند کریم نے ایسا نہیں کہا کہ یے قتل و فساد برپا نہیں کرے گا بلکہ یے کہا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔
(اب یہاں سے ایک بات یے بھی ہے کہ زمین میں قتل و فساد بڑے بڑے گناہ ہیں۔)
وہاں پر ملائکہ کے سامنے اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اسماء تعلیم کیے اور یے اسماء ہماری دنیا والے اسماء نہیں ہیں بلکہ یے اسماءللہ ہیں یعنی صفاتِ خدا۔
جیسا کہ:
عالم نام ہے اور علم صفت ہے۔
قادر نام یے قدرت صفت ہے۔
حی نام ہے اور حیات صفت ہے۔
یے تمام صفات اللہ تعالیٰ نے آدم کو عطا کی اور جس پر عطا ہوئی وہ کوئی شخصیت ہوگی عام مخلوق نہیں اور یے بھی یاد رہے کہ یے اسماء اُس آدم کو نہیں ملے جسے ہم اپنا دادا کہتے ہیں بلکہ یے کوئی اور آدم ہے۔
ملائکہ کو تو مل نہیں سکتے کیونکہ ملائکہ جہاں تھے وہیں پر ہی ہیں۔
اب اللہ تعالیٰ نے اُس آدم کو علم عطا کیا اور وہ عالم بن گیا۔
ملائکہ کے اعتراض کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے ان سے کچھ نام پوچھے جوکہ وہ نہیں بتاپائے اور کہنے لگے یارب! ہمارے پاس اس سے مزید نہیں ہے جتنا آپ نے عطا کیا ہے۔
اب اللہ تعالیٰ نے آدم کو کہا کہ ملائکہ کو ان اِسماء کی خبر دو، اب یہاں پر ایک اور وضاحت کرتا چلوں کہ اللہ نے آدم کو اسماء تعلیم دیے اور تعلیم دینے سے مراد یے ہے کہ دینے والا علم دے رہا ہے اور لینے والا علم لے رہا ہے مگر اللہ نے آدم کو کہا کہ ملائکہ کو اِن اسماء کی خبر دو اور خبر سے مراد یے ہے کہ دینے والا علم دے رہا ہے مگر سمجھنے والا سمجھے یا نہیں یے دینے والے کا کام نہیں یے۔ اب ملائکہ کو کوئی خبر نہیں کہ کہنے والا کیا کھہ رہا ہے؟
اللہ کے حکم سے آدم بن گیا اور تمام ملائکہ کو سجدے کا حکم ہوا اور اُن میں سے ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا۔
اب اللہ نے کہا کہ جنت میں جاو اور جنت میں سب جگہ جانا مگر اُس جگہ مت جانا، شیطان وہان پہنچ گیا اور کہا کہ ایسا اللہ نے اس لیے کہا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ تم ہمیشہ یہاں رہو اس سے آدم وسوسے میں آگئے اور خدا کے حکم کی نافرمانی کردی اور حکمِ خداوندی ہوا کہ اے آدم زمین پر چلے جاو۔
اب زمین پر آنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے آدم نے کچھ جملے سیکھے اور اُن جملوں کی بدولت آدم کی توبہ قبول ہوئی۔
اب یہاں یے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یے وہ آدم نہیں ہے جسے خدا نے تمام اسماء تعلیم فرمائے ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آدم کو توبہ کرنے کا علم بھی ہوتا علم نہیں ہے اس سے مراد یے وہ آدم نہیں ہے جسے اللہ نے تمام اسماء تعلیم فرمائے تھے۔
یے آدم جو زمین پر آگیا یے صفاتِ خدا کا کلی مظہر نہیں ہے اس کا مطلب ایک آدم باقی ہے جوکہ خدا کا کلی مظھر ہے اور اُس آدم کے آنے سے پہلے خدا انسان کو کسی درجے تک پہنچانا جاتا ہے اس لیے اِس آدم سے پہلے اللہ نے دوسرے انبیاء مبعوث فرمائے تاکہ اِس آدم کیلئے زمینہ سازی ہوسکے اور جب وہ آدم آئے تو انسان اسے پہچاننے کیلئے لائق بن سکے۔
اب جانتے ہیں کہ وہ آدم کون ہے جسے اللہ نے تمام اسماء تعلیم فرمائے ہیں؟
جو ذات اللہ کی کلی جانشنین ہے وہ فقط ذات مصطفیٰ (ص) ہے اور یہی ذات اللہ کی جانشین ہے، اس لیے اللہ نے جو صفات اپنے لیے کہیں ہیں وہ ہی صفات رسول اعظم (ص) کیلِئے کہیں ہیں۔
آئمہ اطہارین (ع) کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں، اِن کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ ذاتِ مصطفیٰ (ص) کی وجہ سے ہے، اس لیے جو صفات رسول اکرم (ص) میں پائی جاتی ہیں وہ ہی صفات امیرالمومنین (ع) میں بھی پائی جاتی ہیں۔
جو رسول اکرم (ص) کے بعد امیرالمومنین (ع) کا مقام ہے وہ ہی امام زمانہ (عج) کا مقام ہے۔
اب یہاں پر ایک سوال جنم لیتا ہے کہ:
یاد رکھیں!
جانشنین کا کام ہوتا ہے جس کا جانشنین ہے اس کا تعارف کروائے۔ بحیثیت جانشین کے آدم (ع)، ابراہیم (ع) اپنے اپنے کمالات کے حساب سے جانشین تھے مگر بعض چیزوں میں نہیں تھے اور رسول اکرم (ص) کی ذاتِ واحد ہے جوکہ تمام چیزوں خالقِ کائنات کی صفات کا مظہر ہیں۔
خالق مخلوق کے ذریعے پہچانا جاتا یے، اس لیے اپنے وجود کے ذریعے ان کا تعارف کروا رہا ہے کہ جس میں یے تمام صفات ہوں اسے اسے اعظم کہتے ہیں۔
مخلوق مصطفیٰ ہے اور خالق اللہ ہے، جیسے جیسے نبی مصطفیٰ (ص) کے کمالات ظاہر ہوتےجائیں گے ویسے ویسے محمد (ص) کے خالق کا تعارف ہوتا چلے جائے گا۔
اب اس میں ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ ہم یے سیکھ سکتے ہیں کہ ہم امام زمانہ (عج) کو دیکھیں تاکہ اس کے ذریعے اللہ کے کمالات کو پہچان سکیں۔
4. امام کیوں آرہے ہیں؟
آئیے قرآن سے پوچھتے ہیں: (سورہ بقرہ آیت 213)
كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّّاحِدَةًۚ فَبَعَثَ اللّـٰهُ النَّبِيِّيْنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَۖ وَاَنْزَلَ مَعَهُـمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيْهِ اِلَّا الَّـذِيْنَ اُوْتُوْهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُـمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَـهُـمْ ۖ فَهَدَى اللّـٰهُ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهٖ ؕ وَاللّـٰهُ يَـهْدِىْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِـيْمٍ (
سب لوگ ایک دین پر تھے، پھر اللہ نے انبیاء خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بھیجے، اور ان کے ساتھ سچی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں میں اس بات میں فیصلہ کرے جس میں اختلاف کرتے تھے، اور اس میں اختلاف نہیں کیا مگر انہیں لوگوں نے جنھیں وہ (کتاب) دی گئی تھی اس کے بعد کہ ا ن کے پاس روشن دلیلیں آ چکی تھیں آپس کی سرکشی کی وجہ سے، پھر اللہ نے اپنے حکم سے ہدایت کی ان کو جو ایمان والے ہیں اس حق بات کی جس میں وہ اختلاف کر رہے تھے، اور اللہ جسے چاہے سیدھے راستے کی ہدایت کرتا۔
آیت کا مفہوم:
حضرت ادریس (ع) سے پہلے انسانوں میں کوئی اختلاف نہیں تھا سب متحد تھے اب چونکہ انسانی معاشرہ وجود میں آنے لگا تھا تو اختلافات پیدا ہونے لگے اِن اختلافات کو ختم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس (ع) کو رسول بناکر بھیجا تاکہ تمام انسانوں کو حقوق العباد، فرائض اور ذمہ داریاں بتائے۔
کچھ ذمہ داریان فطری ہیں کچھ ہمیں خود بنانی ہیں.
آیت میں کتاب سے مراد شریعت ہے، نبی پیدا ہوتے ہی نبی ہے رسول بعد میں بنتا یے، نبی کتاب لے آیا ہے سے مراد کہ قانون لے آیا ہے۔
اب جب قانون کے تحت حق بیان ہوگیا تو پھر اختلاف پیدا ہوگا۔
اختلاف کون لوگ کرتے ہیں؟ وہ لوگ نہیں جو کافر ہیں، نہیں ! نہیں!
بلکہ وہ جو ہمارے اندر ہیں وہ اختلافات کرتے ہیں، اور اختلاف کس بنیاد پر کرتے ہیں؟
وہ لوگ شریعت یعنی قانون کی اپنی اپنی تاویل کرتے ہیں تاکہ وہ لوگ فوائد مومنوں جیسے حاصل کرسکیں مگر ایسے لوگ نہ مومن ہیں اور نہ ہی کافر بلکہ ایسے لوگ منافق ہیں اور یے لوگ مومنوں سے سرکشی کرتے ہیں اور مومنوں سے سرکشی یعنی خدا سے سرکشی ہے اور پھر خدا ہدایت فقط مومنوں دیتا ہے کیونکہ سرکشی کرنے والے لوگ سے پہلے اپنے مفاد کو آگے کرتے ہیں اور اللہ جسے چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گمراہ کردے۔
تنظیموں میں اکثر ایک فرد دوسرے فرد پر سرکشی کرتا ہے کہ جی ہم دونوں جب ایک جتنے سینئر ہیں تو فلاں عہدہ اسے کیوں دے دیا؟
محترم عزیز!
یے سرکشی ہے۔
یاد رکھیں!
جو تسلیم ہوگا ہدایت فقط اسے ہی حاصل ہوگی۔
بہرکیف!
ہماری امّت میں اختلاف تب تک رہے گا جب تک ہم انسان خدا کے بنائے ہوئے طریقے سے اہنے حقوق و فرائض تسلیم نہیں کریں گے۔
اب سوال یے ہے کہ اس اختلاف کا حل کہاں پر ہے؟
اختلاف کا حل شریت کے پاس ہے تو کیا شریعت موجود ہے؟
جی بلکل موجود ہے!
تو کیا میں نے اختلاف کے حل کیلئے کوشش کی؟
اگر نہیں تو اس کا مطلب میں اختلاف کو ختم کرنا ہی نہیں چاہتا۔
اب آئیے قرآن سے اس کا حل پوچھتے ہیں:
قرآن مجید میں سورہ حدیر کی آیت 25 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ۔
یقیناً ہم نے اپنے رسولوں(ع) کو کھلی ہوئی دلیلوں (معجزوں) کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم ہوں اور ہم نے لوہا نازل کیا (پیدا کیا) جس میں بڑی قوت ہے (اور شدید ہیبت ہے) اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں تاکہ اللہ دیکھے کہ کون دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں(ع) کی کون مدد کرتا ہے؟ بےشک اللہ بڑا طاقتور (اور) زبردست ہے۔
آیت میں لوہے سے مراد تلوار (اصلحہ) ہے
ہدایت دینے سے 95 فیصد لوگ ہدایت قبول کرتے ہیں اور ہر جگہ محظ 5 فیصد ہی ہوتے ہیں جو ہدایت کو قبول نہیں کرتے اور یے لوہے کا ذکر ان کیلئے ہے۔
ہمارے ہاں نمازِ جمع میں پیش نماز ہاتھ میں ڈنڈا اس لیے اُٹھاتے ہیں اگر تشریحی ہدایت نہ لی تو اگلا طریقہ کار یے بھی ہے (اب اصلحے کا زمانہ ہے اس لیے نمازِ جمع میں ڈنڈے کے بجائے اصلحہ اُٹھانا چاہیے تاکہ دشمن کچھ خوفزدہ بھی ہو)
یے تلوار (اصلحہ) کس لیے؟
یے اس لیے ہے تاکہ امن برقرار رہ سکے۔
اب ایک سوال یے پیدا ہوتا ہے کہ آج ہم ظلم و فجور کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں تو امام (عج) تلوار کیوں نہیں اُٹھا رہے؟
یاد رکھیں!
امام (ع) کسی پر زبردستی مسلط نہیں ہوتا، جب تک عوام آمادہ نہیں تب تک امام (ع) زبردستی نہیں کرتا، جیسے امیرالمومنین (ع) کے 25 سالہ زندگی۔
جب عوام تیار نہیں تھی تو آپ (ع) نے کہا کہ یے طریقہ بھی آزمالیں تو اس کے بعد جب 25 سال بعد عوام آمادہ ہوئی تو امیرالمومنین (ع) نے تلوار اُٹھائی۔
اب یہاں پر امام زمانہ (ع) کے ظھور کے بعد ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ جب امام (ع) آئیں گے خون سے ندیاں بھا دیں گے فلاں فلاں کی اپنی تلوار سے گردن اُتارے گے۔
یے غلط فہمی ہے!
اگر امام (ع) ایسا کریں تو پھر زندہ کون بچے گا؟
ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ باب العلم کا فرزند آرہا ہے، اگر ایسے کریں گے تو پھر امام (ع) کا تصور بطور ہادی نہیں بلکہ قاتل ہے (معاذاللہ)۔
البت 5 فیصد ہونگے وہ چاہے عالم ہو یا غیر عالم وہ ضرور قتل ہونگے۔
5. زمانہ غیبتِ کبریٰ میں ہماری ذمہ داریاں
ہماری ذمہ داریاں:
اس وقت ہماری دو ذمہ داریاں ہیں:
1) معرفتِ خدا حاصل کریں
2) عدالت کی تحریک چلائیں
معرفتِ خدا:
معرفت خدا بنیادی ذمہ داری ہے ہمیں خلق ہی اس لیے کیا گیاہے کہ ہم خدا کی معرفت حاصل کریں۔
بندے کی بندگی سے مراد معرفت ہےن معرفت خدا کی افضل ترین بندگی ہے وک معرفت کی تعلیم دے اور ہم وہ معرفت حاصل کریں۔
اب ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ:
کیا میں نے خدا کا تصور قرآن و امام (ع) سے لیا ہے؟
جی نہیں!
استاد بھی موجود ہو شاگرد پھر بھی نہ پڑھے تو ایسے شاگرد کی منزل گمراہی کے علاوہ کچھ نہیں۔
امام زمانہ (ع) کی ولادت ماننے والے پر لازم ہے کہ یے بالادرج دو ذمہ داریاں لازمً ادا کریں کیونکہ ولادت منانے والے آزاد نہیں اور جو ولادت کو نہیں مانتے اور جن کے خیال میں ابھی ولادت ہوئی نہیں ہے بلکہ ہوگی یے لوگ آزاد ہیں، ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
معرفتِ خدا میں دو چیزیں آتی ہیں:
1. توحید
2. شرک
توحید آسان ہے مگر شرک مشکل ہے۔
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ:
"بنوامیہ نے مسلمانوں کو توحید سیکھنے کیلئے آزاد چھوڑا مگر شرک سیکھنے کیلئے آزادی نہیں تھی۔"
شرک کیا ہے؟
اطاعتِ خدا بس!
اللہ نے جن کی اطاعت تم پر فرض کی ہیں ان کی مانو، قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ
اے ایمان والو!
اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی، رسول (ص) کی اور اولی الامر کی۔
اب کیا حکمرانوں کی اطاعت کرنا شرک نہیں ہے؟
جب توانائیاں.جسم و دیگر نعمتیں اللہ تعالیٰ کی ہیں تو پھر ہدایت کسی اور سے کیوں؟
کیا آپ یے سمجھ بیٹھے ہیں کل جب امام (ع) آئیں اور آپ (ع) کے مدِمقابل جو بھی آئے گا وہ یزید کہلائے گا؟
بلکل کہلائے گا، زمانہ غیبت میں بھی یہی اصول ہے جو امام (ع) کے نظام کے مدِمقابل آئے گا وہ بھی یزید کہلائے گا۔
سچ بولنے کے بجائے مینے جھوٹ بولا ہے تو یے کس کی اطاعت کی ہے؟
خدا کے بجائے خواہشاتِ نفسانی کی پیروی کی کیا مینے شرک نہیں کیا؟
میرا نفس میرا خدا بنا ہوا ہے، کیا مینے شرک نہیں کیا؟
خدا نے نامحرم کو دیکھنے سے منع کیا اور ہم دیکھ رہے ہیں، تو یے کس کی اطاعتِ رحمانی ہے یا اطاعتِ شیطانی؟
سچ کہا مینے جھوٹ بولا یے کس کی اطاعت ہے؟
ہماری مکمل زندگی شرک میں مبتلا ہے اور ہم یے سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم ہی ہدایت یافتہ ہیں!!
یے ہمارے محفل، میلاد و جشن اس لیے منعقد ہوتے ہیں تاکہ ہم امام العصر (ع) کی مدد کیلئے آمادہ بن سکیں، امام (ع) ظاہر ہے ہم غائب ہیں، اِن محافل کے ذریعے ہم شرک سے مبرا ہوں نہ کہ مبتلا۔
امام (ع) کی ولادت ہوچکی ہے اس لیے ہمیں شرک سے نکالنا ہوگا اور یے طئے کرنا ہوگا کہ یا شرک یا جشن!
عدالت کیلئے تحریک:
اب سوال یے پیدا ہوتا ہے کہ امام (ع) کیسے آئیں؟
امام (ع) کی راہ ہموار کرنے کیلئے دوسری شرط عوام کے اندر عدالتی تحریک کا اُبھرنا ہے اور یے وہ واحد عمل ہے جس کیلئے امام (ع) ہمارے منتظر ہیں، یے تحریک اس لیے تاکہ ظھور کیلئے زمنیہ سازی بناسکیں اور جب امام (ع) آئیں تو پہلے سے ہی تیاریاں مکمل ہوں۔
اب مجھے تجزیہ کرنا چاہیے کہ میں اس تحریک کا حصہ ہوں کہ نہیں؟
ہماری میلاد ، محفل و مجالس اِن تمام اصولوں کی یاد دہانی کیلئے منعقد ہونگی تو پھر یے محافل تعلیماتِ اہل بیت (ع) کے مطابق ہیں اگر نہیں تو پھر یے ہماری اپنی صداقت ہے اہل بیت (ع) کی تعلیم نہیں، ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے وعدہ وفا کرنا ہوگا۔
شعبان المعظم ۱۴۴۲ھ
مسجد شاہ حبیب بھٹ شاہ