مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم


12/23/2017

مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
امام بخاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حدیث بیان کی ہے۔ اسی حدیث کے آخری حصہ کی وضاحت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بیان ہوئی ہے۔ دونوں حدیثیں پیش کی جاتی ہیں:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَجِيءُ نُوحٌ وَأُمَّتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ هَلْ بَلَّغْتَ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ نَعَمْ أَيْ رَبِّ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ لِأُمَّتِهِ:‏‏‏‏ هَلْ بَلَّغَكُمْ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ لَا مَا جَاءَنَا مِنْ نَبِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لِنُوحٍ مَنْ يَشْهَدُ لَكَ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمَّتُهُ فَنَشْهَدُ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ وَهُوَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ سورة البقرة آية 143 وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ". (صحيح بخاري: حدیث نمبر: 3339)
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کے دن) نوح علیہ السلام بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا، کیا (میرا پیغام) تم نے پہنچا دیا تھا؟ نوح علیہ السلام عرض کریں گے میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا۔ اے رب العزت! اب اللہ تعالیٰ ان کی امت سے دریافت فرمائے گا، کیا (نوح علیہ السلام نے) تم تک میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ جواب دیں گے نہیں، ہمارے پاس تیرا کوئی نبی نہیں آیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نوح علیہ السلام سے دریافت فرمائے گا، اس کے لیے آپ کی طرف سے کوئی گواہی بھی دے سکتا ہے؟ وہ عرض کریں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت (کے لوگ میرے گواہ ہیں)۔ آپ (ص) نے فرمایا: چنانچہ ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا پیغام اپنی قوم تک پہنچایا تھا اور یہی مفہوم اللہ جل ذکرہ کے اس ارشاد کا ہے «وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس‏» اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ‘ تاکہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ اور «وسط» کے معنی درمیانی کے ہیں۔ (صحیح بخاری)

اس حدیث میں حضرت نوح نے جو امت کا لفظ استعمال کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو "ہم" کا لفظ فرمایا ہے اس سے مراد کون ہیں؟ یہ اس حدیث میں موجود نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد ہم جیسے امتی نہیں ہیں کیوں کہ ہم نے حضرت نوح علیہ السلام کو ہی نہیں دیکھا تو ان کی تبلیغ کی شہادت کہاں سے دینگے؟ پھر اس ہم سے مراد کون ہیں اس سے امام جعفر صادق علیہ السلام نے پردہ اٹھایا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ جَمِيلِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ لِي إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ وَ جَمَعَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى الْخَلَائِقَ كَانَ نُوحٌ‏ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ أَوَّلَ مَنْ يُدْعَى بِهِ فَيُقَالُ لَهُ هَلْ بَلَّغْتَ فَيَقُولُ نَعَمْ فَيُقَالُ لَهُ مَنْ يَشْهَدُ لَكَ فَيَقُولُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ص قَالَ فَيَخْرُجُ نُوحٌ‏ ع فَيَتَخَطَّى النَّاسَ حَتَّى يَجِي‏ءَ إِلَى مُحَمَّدٍ ص وَ هُوَ عَلَى كَثِيبِ الْمِسْكِ‏ وَ مَعَهُ عَلِيٌّ ع وَ هُوَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُ نُوحٌ لِمُحَمَّدٍ ص يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى سَأَلَنِي هَلْ بَلَّغْتَ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ مَنْ يَشْهَدُ لَكَ فَقُلْتُ مُحَمَّدٌ ص فَيَقُولُ يَا جَعْفَرُ يَا حَمْزَةُ اذْهَبَا وَ اشْهَدَا لَهُ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع- فَجَعْفَرٌ وَ حَمْزَةُ هُمَا الشَّاهِدَانِ لِلْأَنْبِيَاءِ ع بِمَا بَلَّغُوا فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ- فَعَلِيٌّ ع أَيْنَ هُوَ فَقَالَ هُوَ أَعْظَمُ مَنْزِلَةً مِنْ ذَلِكَ. (روضة الکافي: حديث:392)
یوسف بن ابی سعید کہتا ہےمیں ایک دن ابی عبد اللہ علیہ السلام کی خدمت میں موجود تھا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہوگااوراللہ تعالی تمام خلائق جمع کریگا۔سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کو بلایا جائیگا۔ اس سے پوچھا جائیگا: تم نے (اللہ تعالی کا پیغام) پہنچادیا تھا؟ وہ کہے گا : ہاں۔ کہا جائیگا تمہاری گواہی کون دے گا؟ وہ کہے گا محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔ پھر نوح علیہ السلام نکلے گا اور لوگوں کو ہٹاتا ہوا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچے گا۔ اور وہ مسک کے ٹیلے پر ہونگے انکے پاس علی علیہ السلام ہونگے اور اللہ تعالی کے فرمان ہے" فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا"۔جب وہ اسے قریب دیکھیں گے تو کافرین کے چہرے برے بن جائیں گے" پھر نوح علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہیں گے: اے محمد اللہ تبارک و تعالی نے مجھ سے پوچھا ہے: کیا تم نے تبلیغ کی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں۔ اللہ نے فرمایا: تیری گواہی کون دیگا؟ مین نے عرض کیا: محمد (ص)۔پھر رسول اللہ فرمائیں گے اے جعفر! اور اے حمزہ! جاؤ اور اس کی لیے گواہی دو کہ اس نے تبلیغ کی تھی۔ امام جعفر صادق نے فرمایا: پھر جعفر اور حمزہ دونوں، انبیاء کی تبلیغ کے شاہد ہیں۔ راوی کہتا ہے میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا پھر علی کہاں ہونگے؟ آپ نے فرمایا: ان کا مقام اس سے بہت بلند ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
امام بخاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حدیث بیان کی ہے۔ اسی حدیث کے آخری حصہ کی وضاحت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بیان ہوئی ہے۔ دونوں حدیثیں پیش کی جاتی ہیں:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَجِيءُ نُوحٌ وَأُمَّتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ هَلْ بَلَّغْتَ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ نَعَمْ أَيْ رَبِّ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ لِأُمَّتِهِ:‏‏‏‏ هَلْ بَلَّغَكُمْ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ لَا مَا جَاءَنَا مِنْ نَبِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لِنُوحٍ مَنْ يَشْهَدُ لَكَ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمَّتُهُ فَنَشْهَدُ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ وَهُوَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ سورة البقرة آية 143 وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ". (صحيح بخاري: حدیث نمبر: 3339)
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کے دن) نوح علیہ السلام بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا، کیا (میرا پیغام) تم نے پہنچا دیا تھا؟ نوح علیہ السلام عرض کریں گے میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا۔ اے رب العزت! اب اللہ تعالیٰ ان کی امت سے دریافت فرمائے گا، کیا (نوح علیہ السلام نے) تم تک میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ جواب دیں گے نہیں، ہمارے پاس تیرا کوئی نبی نہیں آیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نوح علیہ السلام سے دریافت فرمائے گا، اس کے لیے آپ کی طرف سے کوئی گواہی بھی دے سکتا ہے؟ وہ عرض کریں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت (کے لوگ میرے گواہ ہیں)۔ آپ (ص) نے فرمایا: چنانچہ ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا پیغام اپنی قوم تک پہنچایا تھا اور یہی مفہوم اللہ جل ذکرہ کے اس ارشاد کا ہے «وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس‏» اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ‘ تاکہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ اور «وسط» کے معنی درمیانی کے ہیں۔ (صحیح بخاری)

اس حدیث میں حضرت نوح نے جو امت کا لفظ استعمال کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو "ہم" کا لفظ فرمایا ہے اس سے مراد کون ہیں؟ یہ اس حدیث میں موجود نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد ہم جیسے امتی نہیں ہیں کیوں کہ ہم نے حضرت نوح علیہ السلام کو ہی نہیں دیکھا تو ان کی تبلیغ کی شہادت کہاں سے دینگے؟ پھر اس ہم سے مراد کون ہیں اس سے امام جعفر صادق علیہ السلام نے پردہ اٹھایا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ جَمِيلِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ لِي إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ وَ جَمَعَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى الْخَلَائِقَ كَانَ نُوحٌ‏ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ أَوَّلَ مَنْ يُدْعَى بِهِ فَيُقَالُ لَهُ هَلْ بَلَّغْتَ فَيَقُولُ نَعَمْ فَيُقَالُ لَهُ مَنْ يَشْهَدُ لَكَ فَيَقُولُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ص قَالَ فَيَخْرُجُ نُوحٌ‏ ع فَيَتَخَطَّى النَّاسَ حَتَّى يَجِي‏ءَ إِلَى مُحَمَّدٍ ص وَ هُوَ عَلَى كَثِيبِ الْمِسْكِ‏ وَ مَعَهُ عَلِيٌّ ع وَ هُوَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُ نُوحٌ لِمُحَمَّدٍ ص يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى سَأَلَنِي هَلْ بَلَّغْتَ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ مَنْ يَشْهَدُ لَكَ فَقُلْتُ مُحَمَّدٌ ص فَيَقُولُ يَا جَعْفَرُ يَا حَمْزَةُ اذْهَبَا وَ اشْهَدَا لَهُ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع- فَجَعْفَرٌ وَ حَمْزَةُ هُمَا الشَّاهِدَانِ لِلْأَنْبِيَاءِ ع بِمَا بَلَّغُوا فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ- فَعَلِيٌّ ع أَيْنَ هُوَ فَقَالَ هُوَ أَعْظَمُ مَنْزِلَةً مِنْ ذَلِكَ. (روضة الکافي: حديث:392)
یوسف بن ابی سعید کہتا ہےمیں ایک دن ابی عبد اللہ علیہ السلام کی خدمت میں موجود تھا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہوگااوراللہ تعالی تمام خلائق جمع کریگا۔سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کو بلایا جائیگا۔ اس سے پوچھا جائیگا: تم نے (اللہ تعالی کا پیغام) پہنچادیا تھا؟ وہ کہے گا : ہاں۔ کہا جائیگا تمہاری گواہی کون دے گا؟ وہ کہے گا محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔ پھر نوح علیہ السلام نکلے گا اور لوگوں کو ہٹاتا ہوا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچے گا۔ اور وہ مسک کے ٹیلے پر ہونگے انکے پاس علی علیہ السلام ہونگے اور اللہ تعالی کے فرمان ہے" فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا"۔جب وہ اسے قریب دیکھیں گے تو کافرین کے چہرے برے بن جائیں گے" پھر نوح علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہیں گے: اے محمد اللہ تبارک و تعالی نے مجھ سے پوچھا ہے: کیا تم نے تبلیغ کی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں۔ اللہ نے فرمایا: تیری گواہی کون دیگا؟ مین نے عرض کیا: محمد (ص)۔پھر رسول اللہ فرمائیں گے اے جعفر! اور اے حمزہ! جاؤ اور اس کی لیے گواہی دو کہ اس نے تبلیغ کی تھی۔ امام جعفر صادق نے فرمایا: پھر جعفر اور حمزہ دونوں، انبیاء کی تبلیغ کے شاہد ہیں۔ راوی کہتا ہے میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا پھر علی کہاں ہونگے؟ آپ نے فرمایا: ان کا مقام اس سے بہت بلند ہے۔